شنقیط کی قدیم لائبریریاں اور بتدریج آگے بڑھتی ریت
7 اگست 2010شِنگوئیٹی یا شنقیط میں ایسی تحریری دستاویزات بھی محفوظ ہیں، جو ایک ایک ہزار برس پرانی ہیں۔ تاہم تمام تر عالمی توجہ اور یونیسکو کے ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود یہ لائبریریاں آگے بڑھتی ہوئی صحرائی ریت کی زَد میں آ رہی ہیں۔ یہاں محفوظ کتابوں کے لئے موسمیاتی تبدیلیاں بھی خطرہ بنی ہوئی ہیں لیکن اِن کی دیکھ بھال کے انتظامات بھی مناسب نہیں ہیں۔
موریطانیہ کے پندرہ سو آبادی والے شہر شِنگوئیٹی یا شنقیط کو جدید دور تک بھی صحارا کے علاقے میں تجارتی قافلوں کے ایک مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ قُرب و جوار سے زائرین حج پہلے یہیں پر جمع ہوتے تھے اور پھر یہاں سے مل کر مکہ کی جانب سفر پر روانہ ہوا کرتے تھے۔ وہ مقدس دستاویزات، جو وہ اپنے ساتھ لایا کرتے تھے یا اپنے سفر کے دوران جمع کیا کرتے تھے، وہ اِسی شہر کی لائبریری کی زینت بن جایا کرتی تھیں۔
شنقیط کی اندازاً بارہ تا پندرہ ذاتی لائبریریوں میں سے ایک احمد محمود فاؤنڈیشن کی لائبریری کے بھاری چوبی دروازے کو کھولنے سے لے کر اِس کے اندر موجود کتابوں کی دیکھ بھال تک کی ساری ذمہ داریاں ایک سابق پرائمری اسکول ٹیچر سیف الاسلام انجام دیتے ہیں۔ اِس لائبریری میں قرونِ وُسطےٰ سے لے کر آج تک کے دَور کی تقریباً سات سو کتابیں اور مخطوطات ہیں، جن کی نگرانی سیف الاسلام کے خاندان کے ذمے ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کتابیں پیغمبرِ اسلام ﷺ، مذہبِ اسلام اور مقدس کتابوں کی تفاسیر کے بارے میں ہیں۔
غیر ممالک کی جانب سے فراہم کی جانے والی رقوم کی مدد سے پتھر سے بنی اِس عمارت کی تجدید اور مرمت کا کام تو انجام دیا گیا ہے لیکن اِس کے اندر گرد ہی گرد نظر آتی ہے۔ شنقیط کے میئر محمد عود امارا کے مطابق اُن کے پاس اِس لائبریری کی دیکھ بھال کے لئے پیسہ نہیں ہے۔ کچھ پیسہ باہر سے آنے والے سیاحوں سے مل جاتا تھا لیکن افریقہ میں دہشت پسندانہ حملوں کے بعد سے وہ سیاح بھی اب اِدھر کا رُخ نہیں کرتے۔
شہر کے میئر بتاتے ہیں:’’ہم نے یہاں ایک طرح کی ثقافتی سیاحت کو رواج دیا ہے، رہائشی سہولتوں پر بہت پیسہ لگایا ہے، جو اب خالی پڑی ہیں۔ شنقیط کی معیشت کا انحصار ہی ثقافتی سیاحت پر ہے تاہم دہشت پسندانہ واقعات ہونے کے بعد گزشتہ چند برسوں سے غیر ملکی سیاحوں کی آمد کم ہو کر محض تین تا پانچ فیصد رہ گئی ہے۔‘‘
گویا ایک سو سیاحوں کی بجائے اب صرف تین سے لے کر پانچ تک سیاح اِس لائبریری کو دیکھنے کے لئے شنقیط پہنچتے ہیں۔ تاہم اس شہر کو ایک اور خطرے کا بھی سامنا ہے اور وہ یہ کہ آگے بڑھتی ہوئی صحرائی ریت آہستہ آہستہ اِس شہر کو نگلتی جا رہی ہے۔ چھت کے قریب بنی کھڑکیاں رفتہ رفتہ تہہ خانے کی کھڑکیوں کی شکل اختیار کر جاتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ ریت کے بوجھ سے پوری چھت ہی بیٹھ جاتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے صحرائی علاقے کے پھیلاؤ کا عمل تیز تر کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شنقیط کے بہت سے شہری یہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
میئر محمد عود امارا بتاتے ہیں:’’پہلے صحرا کے پھیلنے کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ ماضی میں یہاں 32 کلومیٹر تک کھجور کے درختوں کے جھنڈ تھے، لیکن اب دونوں جانب سے صحرا ہم سے محض ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے تک آن پہنچا ہے۔ صحراؤں کے اِس پھیلاؤ کے پیچھے یقیناً موسمیاتی تبدیلیاں کارفرما ہیں۔ درجہء حرارت بڑھتا جا رہا ہے، کنویں سوکھتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک نیا عنصر ہے، جو گزشتہ چند برسوں سے دیکھنے میں آ رہا ہے۔‘‘
شنقیط شہر کے میئر کے مطابق اِس آگے بڑھتی ریت کو روکنے کے لئے کیا تو بہت کچھ جا سکتا ہے، درخت لگائے جا سکتے ہیں، پانی کے لئے گہرے کنویں کھودے جا سکتے ہیں لیکن اِن سب اقدامات کے لئے بہت زیادہ پیسے کی ضرورت ہے۔
اِس شہر کی لائبریریوں میں نویں صدی عیسوی تک کی بھی تحریریں محفوظ ہیں۔ اُس دَور کی کئی تحریریں اِس خطے میں پائے جانے والے اُس ہرن کی کھال پر رقم ہیں، جو اب ناپید ہو چکا ہے۔ اگرچہ چمڑے پر لکھی تحریریں زیادہ دیر تک محفوظ رہتی ہیں تاہم ریت، گرد اور نمی اِن تحریروں کو بھی خطرے سے دوچار کر رہی ہے۔
رپورٹ : امجد علی
ادارت : افسر اعوان