شنگھائی تعاون تنظیم کی سمٹ، ایرانی شرکت اہمیت کی حامل
9 جون 2018
چینی صدر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اٹھارہویں سربراہ اجلاس کا افتتاح کر دیا ہے۔ اس سربراہ اجلاس میں خاص طور پر ایران کے صدر حسن روحانی بھی شرکت کر رہے ہیں۔
اشتہار
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں پاکستان کے صدر ممنون حسین بھی شریک ہیں۔ پاکستان کی طرح بھارت کو بھی گزشتہ برس اس تنظیم کی رکنیت حاصل ہوئی تھی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی چنگ ڈاؤ میں موجود ہیں۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اس اجلاس میں شرکت کے لیے پہلے سے چین میں موجود ہیں۔ وہ تین روزہ دورہ پر آٹھ جون کو بیجنگ پہنچے تھے۔
ایران شنگھائی تعاون تنظیم کا باضابطہ رکن نہیں ہے لیکن ایرانی جوہری ڈیل کے بعد کی صورت کے تناظر میں اس سمٹ میں حسن روحانی چینی صدر کی دعوت پر شرکت کر رہے ہیں۔ ایران نے اس تنظیم کی رکنیت کی درخواست سن 2008 سے دے رکھی ہے۔ ایرانی جوہری ڈیل کے طے پا جانے کے بعد چینی صدر شی جن پنگ اس تنظیم میں ایران کی شمولیت کے حق میں ہیں۔
اس کا امکان ہے کہ چنگ ڈاؤ اجلاس میں ایرانی رکنیت کے معاملے پر مثبت پیش رفت سامنے آئے۔ سردست ایران کو شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر ملک کا درجہ حاصل ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا یہ اجلاس اس لیے بھی اہم خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کا انعقاد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایرانی جوہری ڈیل سے دستبرداری کے بعد ہو رہا ہے۔
روس اور چین واضح کر چکے ہیں کہ وہ ایرانی جوہری ڈیل کو قائم اور برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
آج شام سے شروع ہونے والی سمٹ کے ایجنڈے پر تجارت اور ترقیاتی معاملات میں تعاون جیسے موضوعات بھی شامل ہیں۔ لیڈران ماحولیاتی تبدیلیوں پر بھی بات کر سکتے ہیں۔ ایسا امکان سامنے آیا ہے کہ ان ممالک کے درمیان ڈونلڈ ٹرمپ کی ’امریکا فرسٹ‘ کی پالیسی پر بھی متفقہ پالیسی اپنائی جا سکتی ہے۔
اسی سمٹ کے حاشیے میں ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے بعد کہا کہ موجودہ صورت حال پر تہران اور ماسکو کے درمیان مزید مذاکرات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے جوہری ڈیل سے امریکی علیحدگی کو ناجائز اور اصولوں کے منافی قرار دیا۔
چنگ ڈاؤ میں سکیورٹی انتہائی سخت کی جا چکی ہے۔ سمٹ کے راستے پر واقع دوکانیں بند ہیں اور رہائشیوں کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا گیا ہے۔ کسی بھی ناخوشگوار صورت حال سے فوری طور پر نمٹنے کے لیے بکتر بند دستے اور چوکس فوجی بھی مختلف مقامات پر متعین ہیں۔
سی پیک کے تحت کراچی سرکلر ریلوے نظام کے احیاء کا منصوبہ
پاکستانی حکومت بیس برسوں سے معطل کراچی میں لوکل ٹرینوں کے نظام کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے سی پیک کے تحت کام کا آغاز کرنے والی ہے۔ چین نے اس مد میں 1.7 بلین یورو کی سرمایہ کاری کی ہے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
رابطے منقطع
سن 1999 میں کراچی میں سرکلر ٹرینوں کے بند ہونے کے بعد سے کراچی کے شہریوں کے لیے آمد ورفت جان کا عذاب بنا ہوا ہے۔ لوکل ٹرینیں کراچی کے مضافاتی علاقوں کے رہنے والوں کو شہر کے اقتصادی اور صنعتی زونوں سے مربوط رکھتی تھیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
افراتفری اور آلودگی
کراچی کی آبادی قریب بیس ملین ہے، اس کے باوجود وہاں کوئی مناسب ٹرانسپورٹ سسٹم موجود نہیں۔ منصوبے کی تکمیل کے بعد نہ صرف کراچی کے غیر معمولی اور بے ہنگم ٹریفک میں کمی آئے گی بلکہ موٹر گاڑیوں سے نکلتے بے پناہ دھوئیں میں بھی کمی پیدا کرے گی۔ اس طرح فضائی آلودگی میں کمی پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔
تصویر: picture-alliance/Asianet Pakistan/R. Ali
ریلوے کی پٹریوں پر ناجائز تجاوزات
اگرچہ تینتالیس کلو میٹر طویل کراچی سرکلر ریلوے کا بڑا حصہ اب بھی موجود ہے لیکن اس پر جا بجا غیر قانونی تعمیرات بن چکی ہیں۔ یہ ناجائز تجاوزات نہ صرف ریلوے ٹریک کے آس پاس ہیں بلکہ بعض مقامات پر پٹریوں کے اوپر بھی نظر آتی ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
انہدام اور از سر نو تعمیر
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کراچی لوکل ٹرین سسٹم کو دوبارہ شروع کرنے سے قبل قریب 5،000 گھر اور سات ہزار دیگر تجاوزات کو گرایا جانا ضروری ہے۔ توقع ہے کہ متعدد رکاوٹوں کے باوجود اس منصوبے پر رواں برس ہی کام شروع کر دیا جائے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
رہائشیوں کی جانب سے مزاحمت
اس سال اپریل میں جب حکومت نے تجاوزات گرانے کی کوشش کی تو کچی بستیوں کے رہائشیوں نے شدید احتجاج کیا۔ ایک طویل عرصے سے ریلوے لائن کے قریب بسنے والے افراد کی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں اور اُنہوں نے بلڈوزروں کو بھی آگ لگائی۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’نیو سلک روڈ‘ کا حصہ
کراچی میں ریلوے سرکلر روڈ کا احیاء چین کے ’نیو سلک روڈ‘ نامی بین الاقوامی اِنی شی ایٹو پلان کا ایک حصہ ہے۔ اس کے لیے رقم پاک چین اقتصادی راہداری پروجیکٹ سے دی جائے گی۔