شوبز ستارے،آسمان سیاست پر ماند
30 مئی 2013![](https://static.dw.com/image/16802560_800.webp)
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی شوبز انڈسٹری سے وابستہ افراد سیاسی میدان کا رخ کرتے رہتے ہیں، حالیہ انتخابات میں بھی کئی فنکاروں نےحصہ لیا لیکن وہ کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کر پائے۔
دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں حصہ لینے والوں میں پشتو فلموں کی معروف اداکارہ مسرت شاہین، ممتاز گلوکار ابرارالحق، ٹی وی اداکارہ کنول، ٹی وی آرٹسٹ ماجد جہانگیر اور ماضی کی ٹی وی میزبان خوش بخت شجاعت بھی شامل تھیں۔ان انتخابات میں حصہ لینے والے بیشتر فنکاروں کو گلہ ہے کہ عوامی پذیرائی حاصل کرنے کے باوجود انہیں دھاندلی کے ذریعے ہروا دیا گیا۔
ماضی میں انتخابی سیاست میں حصہ لینے والے ایسے لوگوں میں اداکار محمد علی،مصطفی قریشی، ٹی وی میزبان طارق عزیز، مہتاب راشدی اور نیوز کاسٹر مہ ناز رفیع جسیے قابل ذکر نام بھی شامل ہیں۔
تحریک انصاف کے ٹکٹ پر نارووال کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 117 سے مسلم لیگی رہنما احسن اقبال کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے پاکستان کے معروف گلوکار ابرارالحق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے لیے انتخاب میں حصہ لینا بہت خوفناک تجربہ تھا۔ ان کے بقول ان کے حلقے میں انہیں منظم دھاندلی کے ذریعے ہروایا گیا، 52 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرنے والے ابرارالحق نے اپنے آبائی حلقے میں ایک فلاحی ہسپتال بنا رکھا ہے اور وہ یہاں ایک میڈیکل کالج کے قیام کے منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ابرارالحق کہتے ہیں کہ چار سو ووٹوں والے پولنگ اسٹیشن سے سات سو ووٹوں کا نکل آنا ان کے لیے بڑا حیران کن تھا، ابرار آج کل حلقے کے عوام کا شکریہ ادا کر رہے ہیں اور انہوں نے عدالت سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے سے معروف مذہبی اور سیاسی رہنما مولانا فضل ا لرحمن کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والی پشتو فلموں کی معروف اداکارہ مسرت شاہین نے بتایا کہ فنکار درد دل رکھنے والے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو انسانی معاشرے کے حالات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں،اس لیے انہیں سیاست میں ضرور آنا چاہیے۔
عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تحریک مساوات کی سربراہ مسرت شاہین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ پچھلے پندرہ سالوں سے ایسے علاقے سے الیکشن لڑ رہی ہیں جو حکیم اللہ محسوداور بیت اللہ محسود جیسے لوگوں کے مسکن ہے۔ جہاں عورتیں تو کیا مرد بھی ووٹ ڈالتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ انہیں دکھ ہے کہ خفیہ اداروں کی رپورٹس میں ان کی زندگی کو درپیش خطرات کا بہانہ بنا کر انہیں انتخابی مہم چلانے سے روک دیا گیا تھا۔ ان کو یہ بھی دکھ ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کسی بھی ادارے نے عملی طور پر ان کا ساتھ نہیں دیا۔
مسرت شاہین کو خوشی ہے کہ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں عورتوں کو انتخابی عمل میں شریک ہونے کا حوصلہ مل رہا ہے اور آج خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں بھی عورتیں موجود ہیں۔ اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا، ’’ مجھے دوسری جماعتوں کی طرح امریکا، برطانیہ، سعودی عرب یا دیگر ریاستی اداروں کی حمایت حاصل نہیں ہے اس لیے مجھے معلوم ہے کہ میں کبھی اسمبلی میں نہیں پہنچ سکوں گی لیکن میں اپنی جدو جہد جاری رکھوں گی۔‘‘
معروف ٹی وی پروگرام ففٹی ففٹی سے شہرت پانے والے اداکار ماجد جہانگیر نے کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے سندھ اسمبلی کی صوبائی نشست کے لیے حصہ لیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں انتخابات کے دوران ٹھیک ٹھاک دھاندلی ہوئی تھی اس لیے کراچی میں انتخابات دوبارہ ہونے چاہیں،ان کے بقول فنکار حساس دل کے مالک ہوتے ہیں، انہیں بعض روایتی سیاسی لوگوں کی طرح کرپشن اور چوری چکاری کی عادت نہیں ہوتی۔ اس لیے انہیں سیاست میں ضرور آنا چاہیے، ماجد جہانگیراب آئندہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن انہیں امید نہیں ہے کہ سندھ حکومت یہ انتخابات کروائے گی۔
کراچی سے قومی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینے والی خوش بخت شجاعت کا بھی خیال ہے کہ ان کے حلقے میں انتخابات منصفانہ طریقے سے نہیں ہوئے ہیں۔
اداکارہ میرا نے لاہور سے عمران خان کے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد ازاں انہوں نے اپنا یہ ادارہ ترک کر دیا، البتہ وہ ہارون آباد میں صوبائی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑنے والی اپنی والدہ شفقت زہرہ کی انتخابی مہم میں شریک رہیں، شفقت زہرہ کہتی ہیں کہ میرا کے انتخابی مہم میں شریک ہونے سے ان کی مقبولیت میں تو اضافہ ہوا لیکن وہ یہ الیکشن نہ جیت سکیں۔
پاکستان مسلم لیگ کی طرف سے خواتین کی مخصوص نشست پر پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہونے والی ممتاز ٹی وی اداکارہ کنول کہتی ہیں کہ شو بز سے سیاست میں آنے کا ایک فائدہ تو یہ ہوا ہے کہ وہ عام سیاست دانوں کے مقابلے میں لوگوں میں زیادہ معروف ہیں اور وہ ان کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ لوگ سیاست دانوں کی نسبت شو بز کے لوگوں کے ساتھ اپنے حالات شیئر کرنے میں زیادہ سہولت محسوس کرتے ہیں۔ کنول کہتی ہیں کہ شوبز اور سیاست دونوں کل وقتی کام ہیں اور یہ دونوں بیک وقت نہیں ہو سکتے، اس لیے انھوں نے اب شو بزنس کو خیر آباد کہنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بے پناہ عوامی مقبولیت رکھنے والے شو بزنس کے ستارے انتخابات میں اس لیے کامیاب نہیں ہو پاتے کہ انہیں برادری یا حلقہ جاتی سیاست کا تجربہ نہیں ہوتا، اُن کے پاس مناسب وسائل نہیں ہوتے یا پھر اُنہیں کسی بڑی جماعت کا ٹکٹ نہیں ملتا۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: زبیر بشیر