بہت زیادہ شور نہ صرف زمین پر بسنے والے جانداروں کے لیے باعث تکلیف ہوتا ہے بلکہ یہ آبی حیات کے لیے بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ انسان سمندروں کے اندر کے شور کو کم کر سکتا ہے، جو ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا۔
اشتہار
پانی کے اندر بسنے والے جاندار صرف آوازوں کی مدد سے ابلاغ کا کام لیتے ہیں، یا یوں کہہ لیجیے کہ گفتگو کرتے ہیں۔ سمندر کے پانیوں میں رہنے والے جاندار مخصوص آوازوں کو بطور نیویگیٹر استعمال کرتے ہیں۔
پانی کے اندر یہ مدھم اور سریلی آوازیں ہی ان جانداروں کو اپنے ساتھی تلاش کرنے، حملوں سے بچنے کے لیے اور شکار کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سمندری مخلوقات کی بقاء کے لیے یہ آوازیں انتہائی اہم ہوتی ہیں۔ لیکن زیادہ شور کی وجہ سے وہ یہ آوازیں سننے میں ناکام بھی ہو سکتے ہیں۔
امن کی تباہی
اگر سمندری جاندار آوازیں سننے سے قاصر یا ان کی درست شناخت میں مشکلات کا شکار ہو جائیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ ان کی زندگی معمول کے مطابق نہیں چل سکے گی، یہ پیش رفت ان کی موت کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہے۔
انسانی ترقی کی وجہ سے سمندروں میں آلودگی تو پیدا ہو ہی رہی ہے لیکن ساتھ ہی پانی کے اندر کا ایک مخصوص صوتی اثر (ساؤنڈ سسٹم) بھی متاثر ہو رہا ہے۔
سمندر کے نیچے گہرائی میں کیا کچھ ہو رہا ہے؟
04:00
سمندری حیاتیات کی ماہر لنڈے ویگارٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پانی کے اندر غیر ضروری آوازوں کی آمیزش سے جو شور پیدا ہوتا ہے، وہ آبی حیات کے لیے قابل فہم نہیں ہوتا۔
کینیڈا کی ڈیلہاؤزی یونیورسٹی سے وابستہ لنڈے کے بقول یہ جاندار اس شور کی وجہ سے بعض اوقات حملہ آور جانوروں سے خود کو محفوظ بھی نہیں رکھ سکتے، کیونکہ وہ خطرے کی گھنٹی والی ان آوازوں کو سن ہی نہیں سکتے، جو وہ قدرے ساکت پانیوں میں پہلے بخوبی سن سکتے تھے۔
جہاز رانی کی صنعت
بحری جہازوں سے پیدا ہونے والا شور سمندری خاموشی کو نقصان پہنچانے کا ایک بڑا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی تجارت کا نوے فیصد سامان بحرتی راستوں سے ہی ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے۔
بالخصوص شپنگ روٹس پر ان بحری جہازوں کا شور بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ پچاس برسوں کے دوران اس شور میں بتیس گنا اضافہ ہوا ہے۔
بحری جہازوں کو ماحول دوست بنانے اور ان سے پیدا ہونے والے شور کو کم کرنے کے ماہر ماکس شوسٹر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر کوشش کی جائے تو اس صوتی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ماکس کے مطابق بالخصوص کارگو بحری جہازوں کو جدید ٹکنالوجی سے آراستہ کرتے ہوئے ان مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس میں ابھی مزید ترقی کی بہت گنجائش ہے۔
اشتہار
کم مداخلت کم تباہی
یہ تو واضح ہے کہ انسان جتنا کم مداخلت کرے گا، ایکو سسٹم اتنا ہی کم متاثر ہو گا۔ یہ سب شور انسان کا ہی پیدا کردہ ہے۔
ونڈ ٹربائین کا شور بھی سمندری حیات کے لیے انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ تاہم تحفظ ماحول کی خاطر توانائی کے متبادل ذرائع میں یہ ٹیکنالوجی کلیدی قرار دی جاتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے سن دو ہزار پچاس تک دنیا بھر میں ایسے ڈیرھ لاکھ ونڈ ٹربائین لگانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ایک ونڈ ٹربائین کا پانی کے اندر شور ویسا ہی ہوتا ہے، جیسا کہ کسی مسافر طیارے کا لینڈنگ یا اڑتے وقت ہوتا ہے۔ خود سوچ لیجیے کہ یہ شور آبی حیات کو کیا کیا نقصانات پہنچا سکتا ہے۔ ماہرین کا البتہ کہنا ہے کہ اس شور کو کم کرنے کی خاطر 'ببل کنٹینر‘ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔
وہ وقت دور نہیں جب سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہو گا
گزشتہ نصف صدی میں ہم نے 8.3 بلین ٹن پلاسٹک تیار کیا ہے، جس کی اکثریت کسی نہ کسی صورت میں ہمارے ماحول کو تباہ کر رہی ہے۔ معاملات اسی طرح جاری رہے، تو سن 2050 تک سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک پایا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
جب پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ کوئی مسئلہ نہیں تھا
سن 1950 سے 1970ء تک کی دہائیوں میں پلاسٹک کم مقدار میں بنتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ نہ ہونے کے برابر تھا اور یہ دنیا کے لیے بڑا مسئلہ نہیں تھا، جتنا پلاسٹک کوڑے تک پہنچتا تھا، اسے ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا۔
تصویر: Ben Curtis/AP Images/picture alliance
صنعتی ترقی اور پلاسٹک کی پیداوار تین گنا
سن 1990 کی دہائی تک پلاسٹک کی پیداوار تین گنا سے بھی زیادہ بڑھ چکی تھی۔ اسی طرح پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ بڑھا اور آہستہ آہستہ یہ ایک مسئلہ بنتا گیا۔
سن 2000 کے اوائل میں پلاسٹک کی پیداوار بے تحاشہ بڑھ چکی تھی۔ ایک دہائی میں پلاسٹک کی پیداوار اتنی بڑھی، جتنی گزشتہ چار دہائیوں میں ملا کر بھی نہیں بڑھی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
پلاسٹک کا کچرا، آج کی دنیا کا بڑا مسئلہ
آج دنیا بھر میں سالانہ بنیادوں پر تین سو ملین ٹن پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ جمع ہوتا ہے۔ اگر دنیا کی مجموعی آبادی کا وزن کیا جائے، تو وہ پلاسٹک کے اس وزن سے کم ہو گا۔
تصویر: Getty Images/E. Wray
پلاسٹک: ماحول کی تباہی کا ذمہ دار
سن 1950 سے لے کر اب تک قریب 8.3 بلین ٹن پلاسٹک تیار کیا گیا ہے۔ اس کے ساٹھ فیصد کو درست اور ماحول دوست طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جا سکا، جس کی وجہ سے یہ پلاسٹک آج یا تو کوڑے کرکٹ کے پہاڑوں کی صورت میں موجود ہے یا ہمارے سمندروں، جنگلات اور ماحول کا حصہ بن کر انہیں تباہ کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/Y. Chiba
سب سے زیادہ نمایاں: سگریٹ کے فلٹر
ایک تازہ سروے کے مطابق پلاسٹک کے کوڑے میں سب سے نمایاں سگرٹ کے فلٹر ہیں۔ پانی و مشروبات کی بوتلیں، بوتلوں کے ڈھکنے، کھانے پینے کی اشیاء کی پیکنگ، شاپنگ بیگز اور اسٹرا دیگر اشیاء ہیں، جو پلاسٹک کے کوڑے کرکٹ کا نمایاں حصہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/W. Steinberg
آبی حیات اور سمندروں کے لیے خطرہ
ہر سال آٹھ ملین ٹن پلاسٹک کا کوڑا ہمارے سمندروں کا حصہ بنتا ہے۔ سمندروں میں یہ پلاسٹک دریاؤں سے پہنچتا ہے۔ دنیا کے دس دریا، نوے فیصد پلاسٹک کا کوڑا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کا دریائے سندھ بھی ان میں شامل ہے، جس سے سالانہ 164,332 ٹن پلاسٹک سمندر میں پھیلتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
مچھلی کم، پلاسٹک زیادہ
اگر پلاسٹک کی پیداوار اور اس سے بننے والے کچرے پر کنٹرول نہیں کیا گیا اور معاملات اسی طرح جاری رہے، تو اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2050 تک ہمارے سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک پایا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
8 تصاویر1 | 8
تیل اور گیس کی تلاش
کارگو بحری جہاز ہوں یا قدرتی وسائل کی تلاش میں نکلے ہوئے جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ بحری بیڑے۔ یہ سبھی قدرت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ تیل اور گیس کی ڈرلنگ کی وجہ سے سمندروں میں ہونے والا شور ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔
اس سے نہ صرف حیاتیاتی تنوع متاثر ہو رہی ہے بلکہ عالمی درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔ اس عمل کو موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک اہم وجہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر سمندروں کی تہہ سے تیل اور گیس نکالنے کا کام روک دیا جائے تو سمندری پانیوں میں خود بخود ایک سکون آ جائے گا۔ یہ تو اب واضح ہے کہ ڈرلنگ کی وجہ سے سمندری تہوں میں زلزلے کی کیفیت برپا ہو جاتی ہے۔
لنڈے ویگارٹ کا اصرار ہے کہ اگر سمندروں میں قدرتی وسائل کی تلاش کا کام روکا نہیں جا سکتا تو کم ازکم ایسی ٹینکالوجی استعمال کی جائے، جس سے سمندری تہوں کو کم نقصان پہنچے۔ ان کے بقول مثال کے طور پر دھماکوں کے بجائے ایک مخصوص ایئر گن کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔
قدرتی وسائل کے لیے سمندری تہوں کو کاٹنے کے لیے یہ ایئر گن مسلسل وائبریشن پیدا کرتی ہے، جس کی آواز انسانی کان کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہے تاہم یہ ان بڑے دھماکوں کے مقابلے میں سمندری سکون کے لیے کم نقصان دہ ہوتی ہے۔
ٹم شاؤئنبرگ (ع ب/ ع س)
ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے سات آزمودہ طریقے
’سٹریس‘ یا ذہنی دباؤ بہت سی بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔ اس سے لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، دل کمزور ہو جاتا ہے اور دل کے دورے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ان سات مشوروں پر عمل کریں اور ٹینشن اور ذہنی دباؤ سے نجات پائیں۔
تصویر: Fotolia
ورزش کریں
اعتدال کے اندر رہتے ہوئے جاگنگ اور سائیکلنگ کرنے سے ذہنی دباؤ سے نجات حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ورزش کرنے سے اعصابی نظام اینڈروفین نامی ہارمون چھوڑتا ہے، جو آپ کے اندر خوشی اور پھرتی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ انتہائی ضروری بات یہ ہے کہ جاگنگ یا سائیکلنگ وغیرہ کرتے ہوئے کسی کے ساتھ مقابلہ نہ کریں کیونکہ اس سے بھی ’اسٹریس‘ والے ہارمون کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔
تصویر: Colourbox/PetraD
توجہ مرکوز کریں
مراقبے، یوگا اور سانس کی مشقوں سے بھی ذہنی دباؤ کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پٹھوں کو آرام دینے والی مختلف طرح کی تھیراپی سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ مالش اور مساج بھی کروا سکتے ہیں۔ یہ چیزیں بہت زیادہ ذہنی تناؤ کی صورت میں بھی بے انتہا مفید ثابت ہوئی ہیں۔
تصویر: Colourbox/Pressmaster
پُرسکون جگہ تلاش کریں
اگر آپ کے گھر میں کوئی پُرسکون کمرہ ہے تو دن میں پندرہ تا بیس منٹ وہاں ضرور گزاریں۔ بڑے شہروں میں اکثر گھروں میں سکون نہیں مل پاتا۔ آپ کسی میوزیم، لائبریری یا پھر عبادت کی جگہ پر بھی جا کر بیٹھ سکتے ہیں۔ کئی بار خاموشی ہی بڑے سے بڑے مرض کی دوا بن جاتی ہے۔
تصویر: Colourbox/A. Mijatovic
فطرت سے قربت
ہالینڈ کے محققین نے پتہ چلایا ہے کہ سبز رنگ انسان پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے اور اسے سکون کا احساس دیتا ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ جو لوگ کسی پارک کے قریب رہتے ہیں یا جن کے گھر میں صحن ہوتا ہے، ان کی ذہنی صحت دیگر لوگوں کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہے۔ کسی سر سبز جگہ کی سیر کرنے ضرور جایا کریں۔
تصویر: Colourbox
کچھ بھی نہ کریں
زیادہ تر لوگوں کا معمول ہی یہ بن جاتا ہے کہ دن بھر دفتر اور اس کے بعد کا وقت دوستوں اور رشتہ داروں کے درمیان۔ لیکن اگر آپ کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، تو کچھ وقت صرف اور صرف اپنے ساتھ بھی گزاریں۔ لوگوں کا ساتھ آپ کے لیے باعثِ مسرت ہونا چاہیے نہ کہ ذہنی دباؤ کا سبب۔ اگر موڈ نہیں ہے تو کسی کی دعوت قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے گھبرائیں نہیں۔
تصویر: Colourbox
وقفے لیں
دن بھر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کام کرتے رہنے سے خون میں تناؤ پیدا کرنے والے ہارمونز کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ اس کو کم کرنے کے لیے درمیان درمیان میں وقفے کرنے چاہییں۔ کچھ دیر تازہ ہوا میں ٹہل کر آئیں۔ پٹھوں کو پُرسکون رکھنے کی ورزش سے بھی بہت فرق پڑتا ہے اور انسان خود کو تازہ دم محسوس کرتا ہے۔
تصویر: Colourbox
خوب آرام کریں
نیند پوری نہ ہونا بھی ذہنی دباؤ کی ایک وجہ بنتا ہے۔ ایک بالغ شخص کو سات سے لے کر نو گھنٹے تک کی نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیند میں ہی آپ کے دماغ کی صفائی بھی ہوتی ہے اور قدرتی طور پر دباؤ کم ہو جاتا ہے۔ ہمیشہ کسی ہوا دار کمرے میں سوئیں اور ایسی چیزوں (مثلاً کسی کے خراٹوں) سے بچنے کی کوشش کریں، جو نیند میں خلل کا باعث بن سکتی ہوں۔