شولس اسرائیل میں: ’ایرانی جوہری ڈیل مزید مؤخر نہیں ہو سکتی‘
2 مارچ 2022
اولاف شولس نے بطور جرمن چانسلر اپنے پہلے دورہ اسرائیل کے دوران بدھ کے دن کہا کہ ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کی بحالی اب مزید مؤخر نہیں ہو سکتی۔ اسرائیل اس معاہدے کی بحالی کا انتہائی حد تک مخالف ہے۔
اشتہار
برلن میں جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت کے سربراہ اور سوشل ڈیموکریٹ سیاست دان اولاف شولس اس وقت وفاقی جرمن چانسلر کے طور پر اسرائیل کا اولین دورہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے بدھ دو مارچ کے روز یروشلم میں کہا کہ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین جوہری معاہدے کی بحالی اب مزید تاخیر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
دونوں ممالک میں نئی حکومتی قیادت
اولاف شولس کے اس دورے پر یوکرین پر روسی فوجی حملے کے بعد پیدا ہونے والی جغرافیائی سیاسی کشیدگی کے گہرے سائے چھائے ہوئے ہیں۔
جرمنی میں طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والی خاتون چانسلر انگیلا میرکل کے جانشین کے طور پر اولاف شولس اور اسرائیل میں کئی مرتبہ سربراہ حکومت منتخب ہونے والے بینجمن نیتن یاہو کے پس رو کے طور پر وزیر اعظم نفتالی بینیٹ دونوں ہی حکومتی سربراہان کے طور پر اپنے اپنے عہدوں پر مقابلتاﹰ نئے ہیں۔ دونوں کو ہی اس وقت بین الاقوامی سطح پر ایسے سیاسی حالات کا سامنا ہے، جو ان کے لیے قیادت کا امتحان ثابت ہو رہے ہیں۔
ایران سے متعلق پالیسی اختلافات واضح ہو گئے
جرمن چانسلر اولاف شولس نے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کے ساتھ ملاقات کے بعد یروشلم میں جس مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا، اس میں دونوں ممالک کے مابین ایران سے متعلق ان کی پالیسیوں میں پایا جانے والا اختلاف رائے چھپا نہ رہ سکا۔
جرمن سربراہ حکومت نے کہا کہ جرمنی چاہتا ہے کہ ویانا میں ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جاری مذاکرات کے نتیجے میں جوہری معاہدے کی بحالی پر حتمی اتفاق رائے ہو جائے۔ اولاف شولس نے اسرائیلی وزیر اعظم بینیٹ کی موجودگی میں صحافیوں کو بتایا، ''اب وقت آ گیا ہے کہ فیصلہ کیا جائے۔ اب اس میں مزید تاخیر بالکل نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اب اس میں مزید تاخیر ہو نہیں سکتی۔ اب بالآخر وہ لمحہ آ گیا ہے کہ کسی اچھے اور مناسب حل کے لیے ہاں کر دی جائے۔‘‘
اشتہار
اسرائیل کی 'گہری پریشانی‘
جرمن چانسلر شولس کے اس موقف کے بعد ان کے اسرائیلی میزبان نفتالی بینیٹ نے، جن کا ملک ایران کا سب سے بڑا حریف ہے، کہا کہ انہیں ایران کے ساتھ ایک نئے معاہدے کے واضح ہوتے جا رہے خد و خال پر 'گہری تشویش‘ ہے۔
نفتالی بینیٹ نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ ایران کو اس کے خلاف عائد پابندیوں کے حوالے سے چھوٹ دیتے ہوئے، تہران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ ناکافی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ان کا ملک 'ویانا میں جاری جوہری مذاکرات پر تشویش کے ساتھ لیکن نظر رکھے‘ ہوئے ہے۔
ساتھ ہی وزیر اعظم بینیٹ نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل جانتا ہے کہ اسے اپنا دفاع کیسے کرنا ہے اور وہ اپنی سلامتی اور مستقبل دونوں کو یقینی کس طرح بنا سکتا ہے۔
’ایران سے خطرہ‘، اسرائیل نے میزائل دفاعی نظام فعال کر دیا
01:06
ہولوکاسٹ میموریل یاد واشیم کا دورہ
قبل ازیں جرمن چانسلر شولس نے یروشلم میں دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کی یاد واشیم کہلانے والی یادگار کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پر نفتالی بینیٹ بھی ان کے ہمراہ تھے۔
اولاف شولس نے وہاں مہمانوں کی کتاب میں اپنے پیغام میں لکھا، ''یہودیوں کا قتل عام جرمنی نے شروع کیا تھا۔ ہر جرمن حکومت کی یہ مستقل ذمے داری ہے کہ وہ اسرائیلی ریاست کی سلامتی اور یہودیوں کی زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔‘‘
اس موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم بینیٹ نے کہا، ''ہولوکاسٹ وہ زخم ہے، جس سے جرمنی اور اسرائیل کے روابط کی بنیاد نے جنم لیا۔ اسی زخم سے شروع کر کے ان دونوں ممالک نے اپنے بہت مؤثر اور دیرپا باہمی تعلقات کو پروان چڑھایا ہے۔‘‘
م م / ب ج (روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)
جرمن تاريخ کا ايک سياہ باب: یہودیوں کی املاک پر نازیوں کے حملے
نو اور دس نومبر 1938ء کو نازی جرمنی میں یہودی مخالف واقعات رونما ہوئے، جنہیں ’کرسٹال ناخٹ‘ یعنی ’ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات’ کہا جاتا ہے۔ اُس رات یہودی عبادت گاہوں اوراملاک پر حملوں کے نتیجے میں سڑکوں پر شیشے بکھر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Schreiber
نو اور دس نومبرکی رات کیا ہوا تھا؟
نازی نیم فوجی دستے ’ایس اے‘ کی قیادت میں سامیت مخالف شہریوں کا مجمع جرمنی کی سڑکوں پر نکلا۔ مشرقی جرمن شہر کیمنٹس کی اس یہودی عبادت گاہ کی طرح دیگرعلاقوں میں بھی یہودیوں کی املاک پر حملے کیے گئے۔ اندازے کے مطابق صرف ایک رات میں یہودیوں کے زیر ملکیت کم ازکم ساڑھے سات ہزار کاروباری مراکز کو نقصان پہنچایا گیا اور سامان لوٹا گیا۔
تصویر: picture alliance
نام کے پیچھے کیا پوشیدہ ہےِ؟
جرمن یہودیوں کے خلاف ہونے والے اس تشدد کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ برلن میں اسے ’کرسٹال ناخٹ‘ (Night of Broken Glass) کہتے ہیں، جس کے اردو میں معنی ہیں ’ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات‘۔ اُس رات یہودی عبادت گاہوں، گھروں اور یہودیوں کے کاروباری مراکز پر منظم حملوں اور تباہی کے نتیجے میں جرمنی کی سڑکوں پر جگہ جگہ شیشے بکھر گئے تھے۔
تصویر: picture alliance/akg-images
سرکاری موقف کیا تھا؟
یہ واقعات ایک جرمن سفارت کار ارنسٹ فوم راتھ کے ایک سترہ سالہ یہودی ہیرشل گرنزپان کے ہاتھوں قتل کے بعد شروع ہوئے تھے۔ راتھ کو سات نومبر کو پیرس میں جرمن سفارت خانے میں قریب سے گولی ماری گئی تھی اور وہ ایک دن بعد انتقال کر گئے تھے۔ گرنزپان کو سزائے موت نہیں دی گئی تھی لیکن کسی کو یہ نہیں علم کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کيا گيا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Imagno/Schostal Archiv
حملے اور تشدد کیسے شروع ہوا؟
سفارت کار ارنسٹ فوم راتھ کے قتل کے بعد اڈولف ہٹلر نے اپنے پروپگینڈا وزیر جوزیف گوئبلز کو یہ کارروائی شروع کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس سے قبل ہی کچھ مقامات پر ہنگامہ آرائی شروع ہو چکی تھی۔ گوئبلز نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ نازی یہودیوں کے خلاف اچانک شروع ہونے والے کسی بھی احتجاج کو نہيں روکیں گے۔ اس دوران جرمنوں کی زندگیوں اور املاک کی حفاظت کرنے کی بھی ہدایات دی گئی تھیں۔
تصویر: dpa/everettcollection
کیا یہ تشدد عوامی غصے کا اظہار تھا؟
ایسا نہیں تھا، بس یہ نازی جماعت کی سوچ کا عکاس تھا، لیکن کوئی بھی اسے سچ نہیں سمجھ رہا تھا۔ نازی دستاویزات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان حملوں اور تشدد کا منصوبہ پہلے ہی تیار کیا جا چکا تھا۔ یہ غیر واضح ہے کہ اس بارے میں عام جرمن شہریوں کی رائے کیا تھی۔ اس تصویر میں ایک جوڑا ایک تباہ حال دکان کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہی رائے رکھتی تھی۔
اپنے نسل پرستانہ نظریات کی وجہ سے نازی چاہتے تھے کہ یہودی رضاکارانہ طور پر جرمنی چھوڑ دیں۔ اس مقصد کے لیے یہودیوں کو سڑکوں پر گھمایا جاتا تھا ور سرعام ان کی تذلیل کی جاتی تھی۔ اس تصویر میں یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ نازیوں کے ظلم و ستم سے پریشان ہو کر فرار ہونے والے یہودیوں پر مختلف قسم کے محصولات عائد کیے گئے اور اکثر ان کی املاک بھی ضبط کر لی گئی تھیں۔
تصویر: gemeinfrei
کیا نازی اپنے مقصد میں کامیاب رہے؟
ان پرتشدد واقعات کے بعد جرمن یہودیوں اور ملک چھوڑ جانے والوں کو نازیوں کے ارادوں کے بارے میں کوئی شکوک وشبہات نہیں رہے تھے۔ تاہم اس طرح کے کھلے عام تشدد پر غیر ملکی میڈیا میں کڑی تنقید کی گئی۔ اس کے بعد یہودیوں پر لازم کر دیا گیا کہ وہ اپنے لباس پر پیلے رنگ کا ستارہ داودی لگا کر باہر نکلیں گے۔
تصویر: gemeinfrei
حملوں کے بعد کیا ہوا؟
ان حملوں کے بعد نازی حکام نے یہودی مخالف اقدامات کی بوچھاڑ کر دی، جن میں ایک طرح کا ایک ٹیکس بھی عائد کرنا تھا۔ اس کا مقصد ہنگامہ آرائی کے دوران ہونے والے نقصان کی ادائیگی تھا۔ کرسٹال ناخٹ اور اس کے بعد کی دیگر کارروائیوں میں ایک اندازے کے مطابق تقریباﹰ تیس ہزار یہودیوں کو قیدی بنا لیا گیا تھا، کئی ہلاک ہوئے اور باقی یہودیوں کو جرمن علاقوں کو چھوڑ کر چلے جانے کے وعدے کے بعد آزاد کیا گیا تھا۔
تصویر: AP
کرسٹال ناخٹ کا تاریخ میں کیا مقام ہے؟
1938ء میں ہولوکاسٹ یعنی یہودیوں کا قتل عام شروع ہونے میں ابھی دو سال باقی تھے۔ عصر حاضر کے ایک تاریخ دان کے مطابق کرسٹال ناخٹ کے دوران کی جانے والی کارروائیوں کا مقصد یہودیوں کو اقتصادی اور سماجی طور پر تنہا کرنا تھا اور انہیں اس بات پر مجبور کرنا تھا کہ وہ جرمن علاقے چھوڑ دیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران91 یہودی شہری ہلاک ہوئے جبکہ کہا جاتا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔