عراقی ایزدی مستقبل میں کہاں رہ سکتے ہیں؟ شمالی عراق میں ان کے وطن پر داعش نے ایزدیوں کی باقاعدہ نسل کشی کرتے ہوئے چار سال قبل قبضہ کر لیا تھا۔ اب وہاں داعش کا قبضہ تو ختم ہو چکا ہے لیکن سب کچھ بدل بھی چکا ہے۔
اشتہار
تین اگست دو ہزار چودہ وہ دن تھا، جب شمالی عراق میں صدیوں سے ایزدیوں کا وطن کہلانے والے خطے پر اسلام کا نام لے کر خونریزی کرنے والے عسکریت پسندوں کی دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس خطے پر قبضے کی جنگ جہادیوں کے ہاتھوں وہ نسل کشی بھی تھی، جس کا واضح ہدف ایزدی تھے۔
لاشوں کے انبار
عراق کے شمال میں ایزدیوں کے وطن کا علاقائی محور سنجار نامی وہ شہر تھا، جہاں ٹھیک چار برس قبل داعش کے جہادیوں نے تباہی مچا دی تھی اور لاشوں کے انبار لگا دیے تھے۔ ماضی کے اس ہنستے بستے شہر میں آج اگر کچھ باقی بچا ہے، تو وہ تباہ شدہ عمارات اور ملبے کے وہ ڈھیر ہیں، جنہیں کوئی بھی نام دیا جائے لیکن ’شہر‘ نہیں کیا جا سکتا۔ ان حالات کی ذمے دار امریکی افواج بھی ہیں۔
سنجار پر داعش کا قبضہ ایک سال سے کچھ ہی زیادہ دیر تک جاری رہا تھا اور پھر نومبر 2015ء میں کرد جنگجوؤں نے امریکی فضائیہ کی طرف سے کیے جانے والے وسیع تر حملوں کی مدد سے اس شہر کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے عسکریت پسندوں کے قبضے سے آزاد کرا لیا تھا۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ عراقی شہر سنجار، جو روایتی طور پر عراقی ایزدیوں کا دارالحکومت قرار دیا جاتا تھا، سب سے زیادہ امریکی جنگی طیاروں کی بمباری سے تباہ ہوا۔ پھر داعش کے قبضے سے اس شہر کی آزادی کے بعد وہاں کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ترک فضائیہ کی طرف سے بھی بمباری کی گئی۔
یوں عراقی ایزدیوں میں تباہی اور ہلاکتوں کے ایک طویل سلسلے کے بعد پایا جانے والا یہ احساس شدید تر ہو گیا کہ وہ اس خطے سے محروم ہو گئے ہیں، جنہیں وہ صدیوں سے اپنا وطن اور اپنی جنت قرار دیتے تھے۔ عراقی ایزدی اپنی زبان میں اپنے اس وطن کو ’شِنگل‘ کہتے ہیں۔
تعمیر نو کا کوئی نشان نہیں
آج کے ’شِنگل‘ میں اس شہر کی تعمیر نو کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ اس کے برعکس عراق کا دوسرا سب سے بڑا شہر موصل، جو صرف ایک سال پہلے داعش کے قبضے سے آزا دکرایا گیا تھا اور جو زنجار سے صرف 120 کلومیٹر مغرب کی طرف واقع ہے، وہاں تو تعمیر نو کا عمل شروع بھی ہو چکا ہے۔
اس کے مقابلے میں ’شِنگل‘ کی داعش کے جہادیوں کے قبضے سے آزادی کو قریب تین سال ہونے کو ہیں اور اب تک وہاں اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوا کہ شہر کی سڑکوں سے تباہ شدہ عمارات کا ملبہ کچھ کچھ ہٹا دیا گیا ہے۔
’شِنگل‘ کے نواح میں بہت سے دیہات بھی پوری طرح تباہ ہو چکے ہیں، جہاں اب بہت کم لوگ رہتے ہیں۔ انہی دیہات میں سے ایک ’ہَیردان‘ بھی ہے، جہاں جانے والی سڑک کے کنارے ایزدی باشندوں کی کم از کم چار اجتماعی قبروں کے ارد گرد اب حفاظتی باڑیں لگائی جا چکی ہیں۔ داعش کے قبضے سے قبل ’ہَیردان‘ میں ایزدیوں کے قریب 300 خاندان آباد تھے۔ آج ایسے خاندانوں کی تعداد صرف 60 ہے۔
شمالی عراق کے اسی ایزدی گاؤں میں ابھی تک مقیم اور سب سے عمر رسیدہ رہائشیوں میں شمار ہونے والے ایک شخص کا نام حسن خلّاف ہے۔ حسن خلّاف کا کہنا ہے کہ چار سال قبل داعش کے ہاتھوں نسل کشی اور پھر داعش کے جہادیوں کے خلاف کردوں کے زمینی اور امریکی جنگی طیاروں کے حملوں کے بعد سے اس کے دو بیٹے، ایک بھائی اور چار بھتیجے لاپتہ ہیں۔ حسن خلّاف کہتے ہیں، ’’میں نہیں جانتا کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں یا وہ بھی ان چار اجتماعی قبروں میں سے کسی ایک میں دفن ہیں، جو اس علاقے میں موجود ہیں۔‘‘
عراقی کردستان اور مرکزی حکومت کے مابین رسہ کشی
’شِنگل‘ کے میئر کا نام فہد حامد عمر ہے، جنہیں اپنا موجودہ عہدہ سنبھالے ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے ہیں۔ وہ خود بھی ماضی میں اسی شہر میں داعش کے جہادیوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ میئر فہد حامد عمر کہتے ہیں کہ ’شِنگل‘ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ شمالی عراق کے کرد علاقے میں واقع ہے اور اگر یہ شہر براہ راست بغداد میں مرکزی حکومت کے انتظام میں ہوتا، تو داعش کے جہادیوں کے وہاں سے نکالے جانے کے قریب تین سال بعد بھی وہاں کی صورت حال وہ نہ ہوتی، جو آج ہے۔
’شِنگل‘ (عربی میں ’شنغال‘) کی تاریخ میں تین اگست 2014ء وہ سیاہ دن تھا جب اس شہر کی طرف بڑھتے ہوئے داعش کے جہادیوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ، ان کے نزدیک، ایزدی ’کافر‘ تھے، جو ’شیطان کی پوجا‘ کرتے تھے اور اس ’مذہبی اقلیت کو ختم کر دیا جانا چاہیے تھا‘۔ اس شہر پر داعش کے حملے کے بعد کم از کم 15 ہزار ایزدی یا تو قتل کر دیے گئے یا ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اس کے علاوہ قریب سات ہزار ایزدی خواتین اور بچوں کو داعش کے جہادیوں نے ’غلام‘ بھی بنا لیا تھا۔
عراقی ایزدیوں کی آبادی، ماضی اور حال
اگست 2014ء سے قبل عراق میں ایزدیوں کی مجموعی آبادی قریب نصف ملین یا پانچ لاکھ تھی۔ ان میں سے ’شِنگل‘ کے علاقے میں قریب ایک چوتھائی ملین انسان رہتے تھے۔ ان میں سے بھی قریب 80 ہزار ’شِنگل‘ نام کے اس شہر میں رہتے تھے، جو اس علاقے کا صدر مقام ہے۔ان باشندوں میں اکثریت ایزدیوں کی تھی۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
آج ان ایزدیوں کی اکثریت مستقل طور پر ’شِنگل‘ سے رخصت ہو چکی ہے۔ یہاں سے نکالے گئے یا نقل مکانی پر مجبور ہو جانے والے ایزدی زیادہ تر شمالی عراق کے بڑے مہاجر کیمپوں، شام کے کرد علاقوں یا پھر ترکی میں پناہ گزین ہیں۔ ان میں سے بہت سے جرمنی میں بھی پناہ لے چکے ہیں۔
جرمنی میں ایزدی
جرمنی میں 2015ء میں قریب 32 ہزار عراقی شہریوں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔ ان میں سے قریب 16 ہزار عراقی ایزدی تھے۔ اس کے علاوہ 2016ء میں جن 97 ہزار سے زائد عراقی باشندوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں، ان میں بھی تقریباﹰ 38 ہزار ایزدی شامل تھے۔ 2017ء میں جن 23 ہزار 605 عراقیوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں، ان میں ایزدیوں کی تعداد 11 ہزار سے زائد رہی تھی۔
عراقی ایزدیوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنا ’شِنگل‘ نامی وطن کھو چکے ہیں۔ وہاں ان کی جلد واپسی اس لیے ممکن نظر نہیں آتی کہ ایزدیوں کا یہ وطن بھی اتنی ہی وسیع تر تباہی اور بربادی کا شکار ہے، جتنا کہ باقی پورا عراق۔
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔