شکار پور امام بار گاہ پر حملہ، 60 سے زیادہ ہلاکتیں
30 جنوری 2015شکار پور کی انتظامیہ کے بقول پولیس کو شبہ ہے کہ یہ ایک خود کش بم حملہ ہو سکتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ طبی ذرائع نے بتایا کہ شکار پور کے علاقے لکھی در میں ہونے والے اس حملے میں چالیس سے زائد نمازی زخمی ہیں، جن میں سے کئی کی حالت نازک ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے کر شواہد اکھٹے کرنے شروع کر دیے ہیں۔
پاکستانی طالبان کے الگ ہو جانے والے دھڑے جنداللہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ جنداللہ کے ترجمان فہد مروت نے بتایا ’’ہمارا ہدف شیعہ برادری کی مسجد تھی اور یہ لوگ ہمارے دشمن ہیں‘‘۔ شکار پور پولیس کے سربراہ ثاقب اسمعیل میمن کے مطابق دھماکے کی نوعیت معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں بم ڈسپوزل اسکواڈ تحقیقات کر رہا ہے۔
نائب انسپکٹر جنرل سائیں رکھیو میرانی کے مطابق شاید بارودی مواد مسجد میں پہلے سے نصب کیا گیا تھا جبکہ پاکستانی ٹی وی چینلز کے مطابق یہ ایک خود کش حملہ ہے۔ شکار پور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے پانچ سو کلومیٹر شمالی کی جانب واقع ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے امام بارگاہ میں ہونے والے دھماکے کی مذمت کی ہے اور زخمیوں کو مکمل طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ سندھ حکومت نے بھی شہر کے تمام ہسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے۔
یہ دھماکہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے، جب جمعے کو پاکستانی حکام نے ملک میں آباد تمام اقلیتوں کے مذہبی مقامات کو بہتر تحفظ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہندو اقلیت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے بتایا کہ ’’ اقلیتیوں کے تمام گروپوں نے حکام سے سلامتی کے انتظامات سخت کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور اب تمام مذہبی مقامات کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔‘‘
ابھی حال ہی میں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے الزام عائد کیا تھا کہ اسلام آباد حکومت اقلیتوں کو تحفظ فراہم میں ناکام رہی ہے۔ اس تنظیم کے مطابق 2014ء کے دوران پاکستان میں مذہبی منافرت میں اضافہ ہوا ہے اور اقلیتوں پر حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اقلیتی رہنما رمیش کمار نے مزید بتایا کہ حکومت ایک ٹیلیفون ہاٹ لائن قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کے ذریعے اقلیتوں کو پولیس سے فوری رابطہ کرنے کی سہولت حاصل ہو گی۔