شکاگو میں بھی کرسٹوفر کولمبس کا متنازعہ مجمسہ ہٹا دیا گیا
25 جولائی 2020
کئی ملین کی آبادی والے امریکی شہر شکاگو میں کرسٹوفر کولمبس کا ایک متنازعہ مجمسہ ہٹا دیا گیا ہے۔ ایسا نسل پرستی کے خلاف اس وسیع تر تحریک کی وجہ سے کیا گیا، جس کا سبب سیاہ فام امریکی شہریوں کے خلاف متعصبانہ سوچ بنی۔
اشتہار
شکاگو سے ہفتہ پچیس جولائی کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق اخبار شکاگو ٹریبیون نے بتایا کہ یہ مجسمہ جمعرات اور جمعے کی درمیانی رات اس چبوترے سے ہٹا دیا گیا، جہاں وہ کئی عشروں سے نصب تھا۔ یہ متنازعہ مجسمہ ہٹائے جانے کا حکم شہر کی خاتون میئر لوری لائٹ فٹ نے دیا تھا۔
خاتون میئر اپنا موقف بدلنے پر مجبور
امریکی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی یہی خاتون مئیر ماضی میں اس مجسمے کو مظاہرین کے وسیع تر احتجاج کے باوجود وہاں سے ہٹانے کے خالف تھیں، جہاں وہ نصب تھا۔ ان کا موقف تھا کہ کرسٹوفر کولمبس کا یہ مجسمہ ہٹانے کا مطلب یہ ہوتا کہ امریکی تاریخ کے ایک حصے کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ لیکن بعد میں وہ عوامی دباؤ کی وجہ سے اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئیں۔
اخبار شکاگو ٹریبیون کے مطابق میئر لوری لائٹ فٹ نے اب اپنی جو گزشتہ رائے بدلی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ اس میٹروپولیٹن شہر میں پولیس اور مقامی مظاہرین کے مابین مزید پرتشدد جھڑپیں ہوں۔
'جبر و استحصال کی یادگاریں‘
شکاگو میں یہ مجسمہ جس جگہ نصب تھا، وہ امریکا کے کئی دیگر شہروں میں کیے جانے والے ایسے ہی مظاہروں کی طرز پر، عوامی احتجاجی تحریک کا مرکز بن گئی تھی۔
افریقی نژاد امریکی شہر جارج فلوئڈ کی پولیس کی ایک کارروائی کے دوران ہلاکت کے بعد پولیس کی بربریت اور نسل پرستی کے خلاف جو احتجاجی تحریک شروع ہوئی تھی، اس کے نتیجے میں صرف امریکا ہی نہیں بلکہ کئی یورپی ممالک کے متعدد شہروں میں بھی ایسے مجسمے او یادگاریں ہٹائی جا چکی ہیں، جو کسی نہ کسی طرح انسانوں کے استحصال اور نسل پرستی سے جڑی ہوئی تھیں۔
امریکا میں ماضی کی یادگاروں کے طور پر جن تاریخی مجسموں کے ہٹائے جانے کے عوامی مطالبے کیے جا رہے تھے، ان کا تعلق زیادہ تر ماضی کی امریکی خانہ جنگی سے تھا۔
اسی طرح کرسٹوفر کولمبس کے مجسمے کو بھی مظاہرین کی طرف سے ماضی کے استحصال، جبر، اذیت اور دکھوں کے تناظر میں دیکھا جا رہا تھا۔
کوسٹوفر کولمبس کون تھا؟
سن 1451 میں پیدا ہونے والا اور 1506ء میں انتقال کر جانے والا کرسٹوفر کولمبس ایک اطالوی جہاز راں تھا، جو ایسا پہلا یورپی شہری بھی تھا، جس نے 'ایک نئی دنیا‘ کے طور پر امریکا دریافت کیا تھا۔ تاریخی طور پر بھی کولمبس کو 'امریکا دریافت کرنے والا یورپی‘ کہا جاتا ہے۔
کئی مؤرخین اور شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے بہت سے سرگرم کارکن بھی کرسٹوفر کولمبس پر اس وجہ سے تنقید کرتے ہیں کہ وہ بھی 'امریکا کے قدیم مقامی باشندوں کے خلاف پرتشدد رویوں کا مرتکب‘ ہوا تھا، جس نے اس دور میں غلاموں کی تجارت کو فروغ دینے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
شکاگو میں کرسٹوفر کولمبس کا مجسمہ ہٹانے جانے سے چند ہفتے قبل امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں بھی شہری انتظامیہ نے ایسے ہی مظاہروں کے بعد وہاں ایک چبوترے پر نصب کردہ کولمبس کا مجسمہ ہٹا دینے کا حکم جاری کر دیا تھا۔
م م / ا ا (ڈی پی اے، اے پی)
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔