شکست کھانے پر بھی ٹرمپ آسانی سے اقتدار نہیں چھوڑیں گے
24 ستمبر 2020
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آئندہ صدارتی انتخابات میں ناکام ہونے پر بھی آسانی سے اقتدار کی منتقلی کے عزم سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ یہ اتنی آسانی سے پرامن طریقے سے ہو سکے گا۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے کہ انتخابات میں اپنی شکست کے بعد بھی وہ آسانی سے اقتدار کامیاب امید وار کو منتقل کر دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاک سے ووٹنگ میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا خدشہ ہے اس لیے وہ پہلے دیکھیں گے کہ ہوتا کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ الیکشن میں ہارتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوگی کہ زیادہ امریکی شہریوں نے ان کے خلاف ووٹ دیا بلکہ اس کی وجہ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ اور دھاندلی ہوگی۔
واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ان سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں اپنے حریف جو بائیڈن سے شکست کے بعد وہ پرامن طور پر اقتدار کی منتقلی کے لیے پرعزم ہیں؟ تو انہوں نے کہا،'' ہم دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔'' انہوں نے کہا، ''امن بہت ہوگا،۔۔۔۔۔ بے تکلفی سے کہوں تو منتقلی نہیں ہوگی۔۔۔ بلکہ یہ جاری رہیگا۔ آپ کو معلوم ہے کہ بیلٹ پر کنٹرول نہیں ہے، اسے آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔''
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ چونکہ انہیں ڈاک کے ذریعے ووٹنگ پر شک ہے اس لیے ان کی نظر میں انتخابی نتائج سپریم کورٹ تک جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کہ وہ میل کے ذریعے ووٹنگ کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن کئی ریاستیں کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظرعوام سے ڈاک کے ذریعے ووٹ کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں تاکہ لوگ زیادہ تعداد میں ووٹ کر سکیں۔
امریکا کی تاریخ میں یہ ایک بہت ہی غیر معمولی بات ہے کہ ملک کا صدر خود ہی جمہوری نظام کے لیے اپنے ہی انتخابی نظام پر بے اعتمادی کا اظہار کرے۔ لیکن صدر ٹرمپ ماضی میں بھی اس طرح کی باتیں کرتے رہے ہیں اور گزشتہ انتخابات میں بھی انہوں نے کہا تھا کہ اگر ہیلری کلنٹن کامیاب ہوئیں تو وہ ان انتخابات کو تسلیم نہیں کریں گے۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔
تصویر: Reuters/Prime Minister's Office/A. Scotti
6 تصاویر1 | 6
صدر ٹرمپ کی اس بیان کی ان کے حریف جو بائیڈن نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ان سے جب صحافیوں نے اس بارے میں سوال پوچھا تو ان کا کہنا تھا، ''آخر ہم کون سے ملک میں ہیں؟ مجھے تو اس پر ہنسی آرہی ہے۔ دیکھیے وہ اس طرح کی بہت ہی غیرمعقول باتیں کرتے رہے ہیں۔ میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ اس پر کیا کہوں لیکن مجھے ان کے بیان پر کوئی حیرانی بھی نہیں ہے۔''
جو بائیڈن کی انتخابی مہم کی ٹیم نے بھی اس پر اپنے رد عمل میں کہا، ''اس انتخاب کا فیصلہ امریکی عوام کرنے والی ہے۔ امریکا کی حکومت اس لائق ہے کہ وائٹ ہاؤس میں غیر قانونی طور پرداخل ہونے والوں کو وہاں سے بے دخل کرسکے۔''
امریکا میں انسانی حقوق کی معروف تنظیم 'امریکن سول لبرٹی یونین نے بھی ٹرمپ کے بیان کو غلط بتاتے ہوئے کہا کہ ''جمہوریت کی بقا کے لیے اقتدار کی پرامن منتقلی بہت ضروری ہے۔امریکی صدر کا بیان ہر امریکی شہری کے لیے پریشانی کا باعث ہونا چاہیے۔''
امریکا میں صدارتی انتخابات کے لیے آئندہ تین نومبر کو ووٹ ڈالیں جائیں گے جس میں صدر ٹرمپ کے سامنے ڈیموکریٹک پارٹی کے امید جو بائیڈن ان کے مد مقابل ہیں۔ انتخابات سے قبل مختلف جائزوں سے اس بات کا پتہ چلا ہے کہ مختلف محاذوں پر ناکامیوں کے سبب صدر ٹرمپ بائیڈن سے پیچھے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں امیدواروں میں کانٹے کی ٹکر ہے اور ایک دلچسپ مقابلے کی امید کی جا رہی ہے۔
ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)
امریکی صدر کے دور صدارت کا پہلا سال، چند یادگار لمحات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت کا ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔ پہلی بار صدرات کا منصب سنبھالنے کے بعد ان کے کئی ایسے متنازعہ بیانات اور فیصلے سامنے آئے جو بلا شبہ یادگار قرار دیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/E. Vucci
مسلم ممالک کے خلاف امتیازی سلوک اور عدالتی کارروائیاں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت کا منصب سنبھالے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ اچانک سات مسلم ممالک کے شہریوں کا 90 روز کے لیے جبکہ تمام ممالک سے مہاجرت کرنے والوں پر 120 دن کے لیے امریکا آمد پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا، جسے بعد میں ملکی عدالت نے کالعدم قرار دے دیا
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Jones
وفاقی تحقيقاتی ادارے کے سربراہ کی اچانک معطلی
نو مئی کو اچانک امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو ان کے عہدے سے برخاست کر دیا گیا۔ جیمز کومی اس بات کی تحقیقات کر رہے تھے کہ آیا ٹرمپ کی الیکشن مہم میں ہیلری کلنٹن کو شکست دینے کے لیے روس کی مدد لی گئی تھی یا نہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Somodevilla
ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے سے اخراج کا فیصلہ
یکم جون 2017 کو امریکی صدر نے اعلان کیا کہ امریکا ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے یعنی پیرس معاہدےسے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ تاہم اس ماہ ان کا کہنا ہے کہ امریکا چند من مانی شرائط پوری کيے جانے کی صورت میں واپس اس معاہدے میں شامل ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Meissner
شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی دھمکی
گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی امریکی دھمکی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات دوبارہ شدید کشیدہ ہوگئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/E. Contini
ٹیکس اصلاحات کا نفاذ
امریکی تاریخ میں ٹیکس کی سب سے بڑی کٹوتی کا اصلاحاتی بل بھی صدر ٹڑمپ کے دور صدارت میں نافذ کيا گيا۔ یہ ٹیکس کے نظام میں 1986ء کے بعد کی جانے والی یہ سب سے بڑی اصلاحات تھیں۔