پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو علاج کے لیے لاہور ہائی کورٹ نے جمعے کے روز بیرون ملک سفر کی مشروط اجازت دی تھی۔
اشتہار
پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کو ہفتہ آٹھ مئی کی صبح کو لاہور ہوائی اڈے سے قطر کے راستے برطانیہ جانے کی مبینہ طور پر اجازت نہیں دی گئی۔ ذرائع کے مطابق امیگریشن حکام نے شہباز شریف سے کہا کہ 'ہمارے سسٹم میں آپ ابھی تک بلیک لسٹ ہیں‘۔
سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف کی جانب سے حکام کو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی دکھایا جا رہا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں، ”میں آپ سے بحث نہیں کر رہا، لیکن عدالت نے مجھے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی ہے۔"
مسلم لیگ نون کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے مقامی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اس اقدام کو حکومت کی 'بدنیتی‘ قرار دیا۔
انہوں نے بتایا، ”جب شہباز شریف آج ائیرپورٹ پہنچے تو فیڈرل انوسٹی گیشن اتھارٹی (ایف آئی اے) کے عہدیداروں نے انہیں روکا اور کہا کہ وہ سفر نہیں کر سکتے کیوں کہ ان کا نام 'پرسن ناٹ اِن لسٹ‘ (پی این آئی ایل) فہرست میں ہے اور ایف آئی اے کا سسٹم عدالتی حکم کے بعد ابھی اپ ڈیٹ نہیں ہوا ہے۔"
مریم اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ جمعے کے روز جب لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی اس وقت ایف آئی اے کے دو اہلکار عدالت میں موجود تھے۔ انہوں نے شہباز شریف کو علاج کے لیے ملک سے باہر جانے سے روکنے کے اقدام کو حکومت کی بدنیتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت عوام کو درپیش مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنی پوری توجہ سیاسی مخالفین پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔
مریم اورنگ زیب کا کہنا تھاکہ عدالتی حکم میں مسلم لیگ نون کے صدر کے قطر جانے والی فلائٹ نمبر کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے شہباز شریف کے نام کو پی این آئی ایل میں شامل کرنے کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی قرار دیا۔
انہوں نے دعوی کیا کہ وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وزیر اعظم کے مشیر برائے امور داخلہ شہزاد اکبر بیانات جاری کر کے کہہ رہے ہیں کہ وہ 'عدالتی حکم کو تسلیم نہیں کرتے‘ اور شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے 'ہر ممکن کوشش‘ کریں گے۔
خیال رہے کہ جمعہ سات مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کے لیے نام بلیک لسٹ سے نکلوانے کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھیں بیرون ملک سفر کرنے کی مشروط اجازت دی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا، ''ماضی کے رویے اور سفری معلومات کے پیش نظر درخواست گزار کا نام اس وقت ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر نہیں ہے اور موجود ہو تو بھی انھیں آٹھ مئی 2021 سے تین جولائی 2021 کے درمیان ایک مرتبہ اپنے طبی معائنے کے لیے عدالت کے سامنے کیے گئے وعدے کے تحت برطانیہ جانے سے نہیں روکا جا سکتا۔"
امیگریشن حکام کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے سسٹم کو اب تک اس فیصلے کے مطابق اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا ہے اس لیے شہباز شریف کو آف لوڈ کیا گیا۔ شہباز شریف جہاز کی روانگی تک ایئرپورٹ پر موجود رہے جس کے بعد جب انھیں تحریری طور پر آف لوڈ فارم فراہم کیا گیا تو وہ اپنی رہائش گاہ کے لیے روانہ ہو گئے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا تھا، ''اربوں روپے کی منی لانڈرنگ میں ملوث شہباز شریف کو باہر جانے کی اجازت دینا قانون کے ساتھ مذاق ہے۔‘‘
ج ا /ش ح (اے پی، اے ایف پی)
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔