پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے بھارتی ہم منصب کو تمام متنازعہ موضوعات بشمول مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی پیشکش کر دی ہے۔ شہباز شریف نے تاہم ان مذاکرات کے لیے بطور سہولت کار متحدہ عرب امارات کا نام لیا ہے۔
اشتہار
وزیر اعظم پاکستان نے منگل کو سرکاری ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ''میرا پیغام بھارتی قیادت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور ہمارے ساتھ کشمیر جیسے سلگتے ہوئے تنازعے کے بارے میں سنجیدہ گفتگو کریں۔‘‘
شہباز شریف نے العربیہ ٹیلی وژن چینل کو یہ انٹرویو دیا جسے پاکستانی سرکاری ٹی وی چینل پر بھی نشر کیا گیا۔ وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ معاملہ اپنے حالیہ دورہ امارات کے دوران متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید کے ساتھ اٹھایا ہے۔ شہاز شریف کے بقول، ''وہ پاکستان کے برادر ہیں اور ان کے بھارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ وہ بھارت اور پاکستان دونوں کوبات چیت کی میز پر لانے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کی طرف سے رد عمل کی درخواست کے باوجود بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے اب تک وزیر اعظم پاکستان کی اس پیشکش پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
شہباز شریف نے یہ بیان کیوں دیا؟
وزیر اعظم شریف کے اس بیان پر ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے والی اور کراچی یونیورسٹی شعبہ بین الاقوامی امور کی پروفیسر شائستہ تبسم نے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم کے اس بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شہباز شریف اپنے ایٹمی پڑوسی ملک کے ساتھ تصادم کے امکانات کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے اس طرح کی پیشکش کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر تبسم نے کہا، ''وزیر اعظم شہباز شریف کی اس پیشکش کے دو اہم محرکات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ابھی حال ہی میں پاکستان کو متحدہ عرب امارات نے ایک امدادی پیکیج دیا ہے جس میں دو ملین ڈالر سے بڑھا کر اس امدادی پیکیج کو تین ملین ڈالر کرنے کی بات کی گئی۔ ممکن ہے کہ اس سلسلے میں کوئی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی ہو کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اپنے معاملات حل کر لے گا یا کم از کم ڈائیلاگ یا پیس ریزولیوشن کی طرف جائے گا۔ پاکستان پہلے بھی بھارت کو ڈائیلاگ کی پیشکش کر چکا ہے مگر اس بار اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے متحدہ عرب امارات کو سہولت کار کے طور پر اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کو کہا ہے۔‘‘
پاکستان نے آخر یو اے ای کو ہی سہولت کار کے طور پر کیوں چنا؟
ڈوئچے ویلے کے اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر تبسم کا کہنا تھا، '' ایک تو یہ کہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے پاکستان کے لیے مزید رقم کیساتھ فائننشل سپورٹ کے لیے پیکیج پر رضارمندی ظاہر کی گئی ہے جو کسی بارگین یا انڈرسٹینڈنگ کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اب تک عرب شیخوں کی بادشاہت محض تفریح اور سیاحت کے لیے اہم مانی جاتی تھیں۔ اب یہ انٹر نیشنل سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی طرف راغب ہو گئے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی وزیر اعظم کا یو اے ای کا کردار بطور سہولت کار اجاگر کرنا ایک نہایت غیر معمولی بات ہے۔‘‘
ڈاکٹرشائستہ تبسم کا مزید کہنا ہے کہ یو اے ای کے بھارت سے بہت قریبی سفارتی اور سیاسی تعلقات ہیں۔ معاشی اور انسانی قوت کی سطح پر بھی یہ دونوں بہت قریبی تعاون سے کام کرتے ہیں۔ یو اے ای میں پاکستانیوں کی طرح بھارتی ورکرز کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے یو اے ای بھارت کیساتھ کس طرح مذاکرات کو ممکن بنائے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا، ''بھارت اس سلسلے میں کبھی بھی کسی تیسرے فریق کو بات چیت میں شامل نہیں کرنا چاہتا۔ پاکستان ماضی میں بھی ایسی پیشکش کر چکا ہے۔ بھارت کی طرف سے کسی مثبت جواب کی امید نہیں کی جا سکتی۔‘‘
تقسیم ہند کی کچھ یادیں، کچھ باتیں
03:06
'مذاکرات کی پیشکش ایک نان اسٹارٹر ہے‘
اسی قسم کے خیالات کا اظہار پاکستان کے ایک اور ماہر علوم بین الاقوامی امور اور تجزیہ نگار ڈاکٹر مونس احمر نے بھی کیا۔ ڈی ڈبلیو سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''وزیر اعظم کی یہ پیشکش ایک نان اسٹارٹر ہوگا۔ بھارت تو مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ نئی دہلی حکومت جموں و کشمیر میں اپنے مقاصد حاصل کر چکی ہے۔ آرٹیکل 370 /35A کو منسوخ کر کے۔ پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کی بھارت کو ضرورت ہی نہیں۔ یہ ایک فیلر ہے جو پاکستان نے چھوڑا ہے۔ اگر بھارت سنجیدہ ہے تو اُسے مثبت جواب دینا چاہیے۔ مگر میں نہیں سمجھتا کہ وہ اسے اپنی ضرورت سمجھتا ہے۔‘‘
1947ء میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے اب تک دو روایتی حریف ایٹمی طاقتیں تین جنگیں لڑ چکی ہیں، جن میں سے دو جنگوں کی بنیادی وجہ ہمالیہ کا متنازعہ علاقہ کشمیر بنا جس پر دونوں ریاستوں کا دعویٰ ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کشمیر کے آدھے آدھے حصے کو اپنے کنٹرول میں لیے ہوئے ہیں۔
دونوں پڑوسی 2019 ء میں ایک اور جنگ کے دہانے تک اُس وقت آ پہنچے تھے جب بھارت نے پاکستان کے اندر فضائی حملہ کیا جس کا نشانہ نئی دہلی کے مطابق عسکریت پسندوں کی تربیت کا مرکز تھا۔
ادھر برسلز میں قائم کشمیر کونسل آف یورپی یونین کے چیئر مین علی رضا سید نے پاکستانی وزیر اعظم کی طرف سے بھارت کو کشمیر سمیت دیگر حساس موضوعات پر مذاکرات کی پیشکش کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کونسل برسلز ہر ایسے اقدام کو سراہتی ہے جس سے خطے میں ایک دائمی امن قائم ہوسکے اور وہاں کے عوام کی زندگی بہتر ہو سکے۔ تاہم علی رضا سید کا کہنا ہے کہ دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اس پیشکش کا کیا جواب دیتا ہے۔ ان کے بقول، ''آج اگر یو اے ای اس میں کردار ادا کر رہا ہے تو ہماری خواہش ہوگی کہ اس میں سب سے اہم کردار کشمیریوں کی رائے کا ہونا چاہیے۔ جس بھی طرح کے مذاکرات ہوں ان میں کشمیری عوام کو ضرور شامل کیا جائے۔‘‘ علی رضا سید کے بقول ماضی میں بھی ایسے مذاکرات اور معاہدے کی باتیں ہوتی رہی ہیں تاہم وہ ناکام رہیں۔ مسئلہ کشمیر کا حل کسی بھی مذاکرات میں کشمیری عوام کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔ وقتی طور پر شاید امن کی صورتحال نظر آئے مگر مستقل امن کبھی قائم نہیں ہو سکتا۔
اشتہار
"ہم غربت کو ختم کرنا چاہتے ہیں"
پاکستان کی طرف سے بھارت کومذاکرات کی پیشکش اور اس عمل میں متحدہ عرب امارات کے سہولت کار کے طور پر کردار ادا کرنا ایک مثبت اشارہ ہے تاہم زیادہ تر تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ بھارت اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرے گا۔
واضح رہے کہ جب سے دونوں ممالک کے مابین بات چیت معطل ہوئی ہے 'بیک ڈور ڈپلومیسی‘ کسی نا کسی شکل میں چلتی رہی ہے۔ 2021 ء میں بھی اسلام آباد اور نئی دہلی کے مابین مذاکرات کی بحالی کی کوشش متحدہ عرب امارات کی ثالثی میں کی گئی تھی۔
علاوہ ازیں پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک کے مابین جنگیں بد حالی، بے روزگاری اور غربت کے سوا کچھ اور نہ دے سکیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا،''ہم غربت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، خوشحالی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تعلیم، صحت کی سہولیات اور روزگار فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے وسائل کو بموں اور گولہ بارود پر ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ یہ وہ پیغام ہے جو میں وزیر اعظم نریندرمودی کو دینا چاہتا ہوں۔‘‘
’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب پورا ہو گيا‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران کئی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ بھارتی سکیورٹی اہلکار اور کشمیری عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin
وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا
ایک سال قبل بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے پاس یہ خصوصی حیثیت صدراتی حکم کے تحت گزشتہ ستر سالوں سے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کے فوری بعد کشمیری رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
تصویر: AFP/R. Bakshi
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع
لاک ڈاؤن کے فوری بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ مودی مخالف جذبات رکھنے والے سرگرم کارکنوں اور شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس بحال کیا جائے۔
تصویر: Imago Images/S. Majeed
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
اگست 2019ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھارت کے زیر انتطام کشمیر پر ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ بھارت کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سےشہریوں پر مبینہ تشدد
لاک ڈاؤن کے پہلے ماہ ہی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ بھارتی افواج کی جانب سے سویلین شہریوں پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بی بی سی نے ان مقامی افراد سے گفتگو کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا
ستمبر دو ہزار انیس میں پاکستان، برطانیہ، بھارت اور خود بھارتی زیر انتطام کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ لاک ڈاؤن کے باعث کشمیر کی معیشت بد حالی کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت
گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت دی۔ اسی ماہ پولیس نے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی سمیت کئی خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرنے پر گرفتار کر لیا۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے
اکتیس اکتوبر کو سرکاری طور پر بھارتی وفاقی حکومت کے احکامات لاگو ہوئے اور جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے، ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس حوالے سے بھارتی وزير داخلہ امت شاہ نے اس پيش رفت پر کہا، ’’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب آج پورا ہو گيا ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa
مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان
نومبر میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019ء میں جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo
انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا
نومبر میں ہی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع لداخ کے خطہ کرگل میں ایک سو پینتالیس روز کے بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا۔ تاہم وادی کمشیر میں اس پر پابندیاں عائد رہیں۔ دسمبر میں اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں موبائل فون کی ٹیکسٹ میسیجنگ سروس بحال کی جائے گی تاہم یہ بحالی بہت محدود تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
جنوری دو ہزار بیس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کی صورتحال پر اجلاس بلایا۔ اس موقع پر چین کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیر کی قمست کا فیصلہ وہاں کی عوام کو کرنا چاہیے اور چین کشمیریوں کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا ہے۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/F. Khan
پاکستانی وزیر اعظم کا خطاب
رواں سال فروری میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے پانچ فروری کو مظفرآباد میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا ہی ایک دن کشمیر کی آزادی کا سبب بنے گا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری
بھارت کی جانب سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ فروری میں ہی امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کا حل نکالنے کے لیے ثالثی کے کردار کی پیش کش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Hussain
انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی
اس سال مارچ میں انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی انتہائی سست رفتار کے ساتھ۔
تصویر: Reuters/A.
نئے قوانین کا نفاظ
اپریل میں بھارتی حکومت کی جانب سے نئے قوانین کا نفاظ کیا جاتا ہے۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں اور کشمیر میں پندرہ سال تک رہائش پذیر ہوگا وہ کشمیری ڈومیسائل کا اہل بن جائے گا۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت
مئی میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کشمیری جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں پانچ بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/J. Dar
’بھارت جمہوریت کے امتحان میں ہار گیا’
اسی سال جولائی میں 'فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت
جولائی میں ہی ایک چھوٹے بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس بچے کے نانا سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کا مبینہ طور پر نشانہ بن گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’یوم استحصال‘
پاکستان کی جانب سے پانچ اگست کو ’یوم استحصال‘ کہا جا رہا ہے۔ آج پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ کشمیر کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے ملک کا ایک نیا ’سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔