1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نومنتخب شہباز شریف، شخصیت اور چیلنجز

11 اپریل 2022

سیاسی مبصرین کے مطابق ’اسٹیبلشمنٹ کے دوست‘ شہباز شریف وزیراعظم تو بن گئے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ طاقتور کے اشاروں پر چلتے ہیں یا پھر نواز شریف کے بیانیے کی پیروی کرتے ہیں۔

Shahbaz Sharif
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے چھوٹے بھائی میاں محمد شہباز شریف پاکستان کے نئے وزیر اعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ شہباز شریف کے شہر لاہور میں ان کی کامیابی کا جشن شروع ہو چکا ہے۔ مٹھائیوں کی تقسیم اور  مبارکبادوں کے تبادلوں کے ساتھ ساتھ لاہور کے کھوکھر ہاؤس پیلس میں شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کی خوشی میں  آتش بازی اور گھڑ ڈانس کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔

 پاکستان کے کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وزارت عظمی کی خوشیاں اپنی جگہ لیکن یہ بات بھی دھیان میں رکھی جانی چاہیے کہ اس مرتبہ وزارت عظمی کی یہ ذمہ داری اپنے اندر جو سنگین '' فالٹ لائنز‘‘ لیے ہوئے ہے ان کا سامنا کرنا آ سان نہیں ہے۔

71 سالہ شہباز شریف پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ ہیں اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں وزیراعلیٰ کے طور پر بھی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف، بھائی میاں محمد نواز شریف اور بھتیجی مریم نواز سمیت ان کے خاندان کے متعدد افراد سیاست میں ہیں۔ موروثی سیاسی کے مخالفین وزیر اعظم شہباز شریف کے اپنے ہی بیٹے کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنوانے کی کوششوں کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہے ہیں۔

تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد اگر پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی ان کے ہی صاحبزادے حمزہ شہباز شریف بن جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اقتدار مکمل طور پر نواز شریف کے گھر سے نکل کر شہباز شریف کے گھر منتقل ہو گیا ہے۔ اور اس بات کو زیادہ دیر تک برداشت  کرنا نواز شریف فیملی کے لیے آسان نہیں ہو گا۔

شہباز شریف، ایک اچھا منتظم

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے معروف تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی نے بتایا کہ شہباز شریف کی شہرت ایک اچھے منتظم کی ہے وہ کام پر یقین رکھتے ہیں اور محاذ آرائی سے گریز کرنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ان کے بقول شہباز شریف اہداف کا تعین کرکے سخت محنت سے کام کرکے ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کے ذریعے عملی نتائج دینے کی شہرت رکھتے ہیں۔

کیا صوبے کا سخت گیر منتظم وسیع البنیاد حکومت چلا سکے گا؟

پہلی دفعہ وزیراعظم بننے والے شہباز شریف اس سے پہلے ماضی میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے دوران براہ راست انتظامی سیکریٹریوں کے ذریعے خود اپنی نگرانی میں کام کرواتے تھے۔ اب انہیں جس کابینہ کا سامنا ہوگا اس کے وزیروں کو نظر انداز یا بائی پاس کرنا ان کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ کیا وہ کراچی یا سندھ کے معاملات میں اپنی رائے پر اصرار کر سکیں گے۔ ان پر ایک طرف عوامی مسائل کے حل کرنے کا دباؤ ہو گا تو دوسری طرف انہیں پاکستان تحریک انصاف کی سخت مخالفت کا سامنا ہوگا۔ مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس نوعیت کی وسیع البنیاد حکومت قائم ہوئی ہے۔  شہباز شریف کو سب کو اکاموڈیٹ کرنا ہو گا اور ضروری اصلاحات کے بعد منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہوگا۔

سینئر صحافی احمد کی رائے میں شہباز شریف سیاسی مسائل کا حل سیاسی طور پر نکالنے کی کوشش کریں گے۔  تاہم ان کے خیال میں شہباز شریف کے لیے مسنگ پرسنز اور فاٹا کے امور پر اتحادیوں کی توقعات پر پورا اترنا آسان نہیں ہو گا۔ ان کے مطابق ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ وہ  سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں کیسے توازن پیدا کریں گے یا ملک کی سیکورٹی اور خارجہ پالیسی میں کتنی مرضی استعمال کر سکیں گے۔

کیا شہباز شریف اقتصادی بحران پر قابو پا سکیں گے؟

مجیب شامی کہتے ہیں، ''اس میں کوئی شک نہیں کہ شہبازشریف کو بڑے مشکل چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ وہ ایسے حالات کو بہتر بنانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں ان کا رول بہت نمایاں تھا۔  سی پیک منصوبوں کی تیز رفتار تکمیل، ڈینگی کے موثر خاتمے میں بھی ان کی کارکردگی بہتر رہی۔ اس لیے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کامیاب ہوں گے۔‘‘

 بعض لوگوں کے نزدیک شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے موقعے پر روپے کی قدر میں اضافے اور اسٹاک ایکسچینج میں بہتری کے آثار رونما شروع ہونا شروع ہو گئے ہیں جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ملک کی کاروباری برادری شہباز حکومت پر اعتماد کا اظہار کر رہی ہے۔

 سینئر صحافی احمد ولید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب پہلی مرتبہ ان کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا تھا تو ان کے اپنے خاندان کے افراد نے ان کی اس بات پر مخالفت کی تھی کہ وہ اس کام کی اہلیت نہیں رکھتے لیکن بعد ازاں انہوں نے اپنا لوہا منوا کر اس تاثر کو زائل کر دیا اور بہت سے ترقیاتی کام کروا کر مسلم لیگ نون کے ووٹ بینک میں اضافہ کیا۔ 

شہباز شریف، اسٹیبلشمنٹ یا نواز شریف کے حامی؟

مجیب الرحمن شامی ایک سوال کے جواب میں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ شہباز شریف کو 'اسٹیبلشمنٹ کا دوست‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کر رکھنے کے حامی تھے۔ وہ سیاسی الجھاؤ اور محاذ آرائی کی بجائے معاشی بہتری کے لیے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

مجیب شامی سمجھتے ہیں کہ چونکہ یہ حکومت طویل عرصے کے لیے نہیں بنی ہے اس لیے اس بات کا امکان کم ہے کہ شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف میں سے کسی ایک کے ساتھ جانے کی مشکل صورتحال پیش آئے۔ '' اب ان سب کو تجربہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے زخم کھا کے اور زخم لگا کے بھی دیکھ لیا ہے۔ اب آگے بڑھنے کا وقت ہے امید ہے سارے فریق اپنا فوکس ملکی بہتری کی طرف رکھیں گے۔‘‘

احمد ولید بتاتے ہیں کہ ماضی میں شہباز شریف چوہدری نثار کے ساتھ مل کر مسلم لیگ نون اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین پل کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ماضی میں ایک طرف اسٹیبلشمنٹ سے نواز شریف کی باتیں منوائی ہیں اور دوسری طرف میاں نواز شریف سے بھی اسٹیبلشمنٹ کی کئی باتیں منوانے میں کامیاب رہے ہیں۔۔ احمد ولید سمجھتے ہیں کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے شہباز شریف کو نواز شریف سے الگ کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں لیکن انہوں نے خاندانی روایات کی پیروی کرتے ہوئے اپنے بھائی کو نہیں چھوڑا۔

شہباز شریف کے مقدمات کا کیا بنے گا؟

شہباز شریف پر کرپشن، منی لانڈرنگ اور ماڈل ٹاون قتل کیس سمیت کئی مقدمے بنے۔ ان کو آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں مجیب شامی نے بتایا کہ ترقی پذیر ملکوں میں سیاست دانوں پر مقدمات  کوئی نئی بات نہیں۔ بہت سے مقدمات سیاسی تعصب، عناد اور انتقامی طور پر بھی  بنائے جاتے رہے ہیں۔ بہت کم سیاست دان ان مقدمات سے بچے ہوں گے۔ کئی سیاست دانوں پر تو دہشت گردی کے مقدمات بھی بنائے گئے تھے۔ ''مجھے امید ہے کہ عدالتیں ان مقدمات کا غیر جانب داری سے جائزہ لیں گی اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے۔ ‘‘

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملیے!

02:38

This browser does not support the video element.

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں