شہباز گل کی گرفتاری، پاکستانی سیاست میں مزید تناؤ کا خدشہ
9 اگست 2022
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے قریبی معتمد شہباز گل کی گرفتاری سے ملکی سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ کئی مبصرین کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، جس سے سیاسی تناؤ اور زیادہ ہو سکتا ہے۔
اشتہار
شہباز گل کی گرفتاری پر پی ٹی آئی نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پارٹی کے اس رہنما کی گرفتاری کے بعد ایک ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے جبکہ سابق گورنر پنجاب سرفراز چیمہ نے عدالت سے اس گرفتاری کا نوٹس لینے کی درخواست کر دی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے مراد سعید، فواد چوہدری اور دیگر رہنماؤں نے اس گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ سابق وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اس گرفتاری کو اغوا قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر شہباز گل کے ایک معاون کی ایسی ویڈیو بھی وائرل ہو گئی، جس میں وہ اس گرفتاری کی تفصیلات بتاتے نظر آتے ہیں۔ اس ویڈیو کو عمران خان سمیت پارٹی کے کئی رہنماؤں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔
پاکستان کے کئی روزناموں نے اپنی آن لائن اشاعت میں تصدیق کی کہ پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اردو کے ایک کثیر الاشاعت جریدے نے پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ شہباز گل کے خلاف تھانہ بنی گالہ میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور ان پر بغاوت پر اکسانے کا الزام ہے۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
پولیس کے مطابق شہباز گل کے خلاف مقدمے میں اداروں اور ان کے سربراہان کے خلاف اکسانے سمیت کئی دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ تاہم جب ڈی ڈبلیو نے تھانہ بنی گالہ سے رابطہ کیا تو وہاں موجود اہلکاروں نے ایسے کسی مقدمے کے اندارج سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
’سوال اٹھانا کوئی جرم نہیں‘
پاکستان میں عمومی خیال یہ ہے کہ تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں کے مابین گزشتہ کچھ عرصے سے کشیدگی چل رہی ہے اور یہ کشیدگی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب پی ٹی آئی نے بلوچستان میں ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے حالیہ کریش سے متعلق سوال اٹھانا شروع کر دیے۔ کچھ ناقدین کے خیال میں اس پارٹی نے فوج کے خلاف مبینہ طور پر ایک منظم مہم بھی چلائی اور اس مہم کے بعد کچھ گرفتاریاں بھی ہوئیں۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس نے ملکی فوج کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی۔ پاکستان تحریک انصاف کی ایک رہنما مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ سوال اٹھانا کوئی جرم نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کو کہا، ''جس انداز میں شہباز گل کو گرفتار کیا گیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ اس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں اور ملک میں جنگل کا قانون نافذ کر دیا گیا ہے۔ غدار وہ نہیں ہیں، جو سوالات اٹھا رہے ہیں بلکہ غدار وہ ہیں جو اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہے اور آئین سے انحراف کر رہے ہیں۔‘‘
عدم اعتماد کی تحريک کب کب اور کس کس کے خلاف چلائی گئی؟
عمران خان ايسے تيسرے وزير اعظم بن گئے ہيں، جن کے خلاف عدم اعتماد کی تحريک چلائی گئی۔ اس سے قبل بے نظير بھٹو اور شوکت عزيز کو بھی تحريک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ يہ کب کب اور کيسے ہوا، جانيے اس تصاويری گيلری ميں۔
تصویر: Daniel Berehulak/Getty Images
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد
پاکستان مسلم ليگ نون کے صدر شہباز شريف نے اٹھائيس مارچ سن 2022 کو وزير اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی ميں عدم اعتماد کی تحريک جمع کرائی۔ اپوزيشن کا الزام ہے کہ حکومت ملک ميں معاشی، سياسی اور سماجی بدحالی کی ذمہ دار ہے۔ قومی اسمبلی کی 342 نشستوں ميں سے عمران خان کی جماعت پاکستان تحريک انصاف کی 155 ہيں۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے حکومت کو 172 ووٹ درکار تھے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance
ملک آئينی بحران کا شکار
تحریک عدم اعتماد پر رائے دہی تین اپریل کو ہونا طے پائی تاہم ایسا نہ ہو سکا کيونکہ عمران خان کی درخواست پر صدر عارف علوی نے اسملبیاں تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ سیاسی و قانوی تجزیہ کاروں کے مطابق پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتی ہیں اور اب یہ صورتحال پاکستان کے لیے ایک نئے سیاسی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔
تصویر: Aamir QURESHI/AFP
شوکت عزيز کے خلاف کرپشن کے الزامات اور عدم اعتماد کی تحريک
اس سے قبل سن 2006 ميں بھی حزب اختلاف نے اس وقت کے وزير اعظم شوکت عزيز کے خلاف تحريک عدم اعتماد چلائی تھی۔ يہ پاکستان کی تاريخ ميں دوسرا موقع تھا کہ کسی وزير اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پيش کی گئی۔ اپوزيشن نے عزيز پر بد عنوانی کا الزام عائد کر کے يہ قدم اٹھايا تھا۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
تحريک ايک مرتبہ پھر ناکام
عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے اپوزيشن کو 172 ووٹ درکار تھے مگر اس وقت کی اپوزيشن صرف 136 ووٹ حاصل کر پائی جبکہ وزير اعظم شوکت عزيز کو 201 ووٹ ملے۔ يوں يہ تحريک بھی ناکام رہی۔
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance
پاکستانی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک
پاکستانی کی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک سن 1989 ميں بے نظير بھٹو کے خلاف چلائی گئی تھی۔ مسلم ليگ نون سے وابستہ سابق وزير اعظم نواز شريف نے اس وقت يہ قرارداد پيش کرتے وقت بھٹو پر الزام لگايا تھا کہ ان کی پاليسياں تقسيم کا باعث بن رہی ہيں اور وہ فيصلہ سازی ميں ملک کی ديگر سياسی قوتوں کو مطالبات مد نظر نہيں رکھتيں۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
بے نظير بال بال بچ گئيں، اپوزيشن کی ’اخلاقی برتری‘
دو نومبر سن 1989 کو 237 رکنی پارليمان ميں عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہوئی۔ 107 نے اس کے حق ميں ووٹ ڈالا جبکہ 125 نے بے نظير بھٹو کی حمايت ميں فيصلہ کيا۔ اپوزيشن کو کاميابی کے ليے 119 ووٹ درکار تھے۔ يوں وہ صرف بارہ ووٹوں کے فرق سے کامياب نہ ہو سکی۔ پارليمان ميں اس وقت اپوزيشن ليڈر غلام مصطفی جتوئی اور پنجاب کے وزير اعلی نواز شريف نے اسے اپوزيشن کے ليے ’اخلاقی برتری‘ قرار ديا تھا۔
مسرت چیمہ کے بقول جو لوگ اس طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں، وہ صرف ایک ٹویٹ کی مار ہیں۔ ''عمران خان کی طرف سے ایک ٹویٹ آ جائے، تو سخت رد عمل کارکنان کی طرف سے آ سکتا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی حب الوطنی پر یقین رکھتی ہے اور تحمل سے کام لینا چاہتی ہے۔‘‘ مسرت چیمہ کے مطابق پی ٹی آئی قانونی راستہ اپناتے ہوئے شہباز گل کی گرفتاری کے خلاف عدالت میں جائے گی۔
اشتہار
’کشیدگی بڑھے گی‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ شہباز گل کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی اور طاقت ور حلقوں کے درمیان دوریاں اور بڑھ جائیں گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شہباز گل نے متضاد باتیں کہی تھیں، لیکن اگر کسی شخص نے کوئی قابل اعتراض بات کی ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ مزید بات چیت کی جائے۔ مکالمت کی جائے۔ اس طرح صرف اظہار رائے پر کسی کو گرفتار کرنا مناسب نہیں۔‘‘
حبیب اکرم کے بقول پی ٹی آئی اس وقت سب سے بڑی جماعت ہے اور اس میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے، ''موجودہ گرفتاری کے بعد خطرہ اس بات کا ہے کہ پی ٹی آئی اور مقتدر حلقوں میں کشیدگی بڑھ جائے گی اور چونکہ پی ٹی آئی کی جڑیں گراس روٹ لیول تک ہیں، اس لیے خدشہ ہے کہ یہ کشیدگی کہیں گراس روٹ لیول تک نہ چلی جائے۔‘‘
کپتان سے وزیر اعظم تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
’پیچ کسے جا رہے ہیں‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تھی، تو اسے مقتدر حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور عدلیہ بھی اس سے مخاصمت نہیں رکھتی تھی۔ تاہم اب کئی مبصرین کے خیال میں پی ٹی آئی سے متعلق اداروں کا رویہ بدل رہا ہے۔
نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اب پی ٹی آئی کے پیچ کسے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''لوگوں میں یہ تاثر تھا کہ پی ٹی آئی کو بہت چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس نے کئی اشتعال انگیز بیانات دیے لیکن انہیں نظر انداز کر دیا گیا۔ ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے بھی نرمی برتی گئی اور فیصلہ کئی برسوں بعد سامنے آیا۔‘‘
اکرم بلوچ نے کہا، ’’اس گرفتاری سے لگتا یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو اب مزید کوئی چھوٹ نہیں دی جائے گی اور اگر یہ پارٹی کوئی غیر قانونی کام کرتی ہے، تو اس کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا اور جو عناصر غیر قانونی کام کریں گے، انہیں بھی جواب دہ بنایا جائے گا۔‘‘
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔