شام کے شہر حلب سے عام شہریوں کے محفوظ انخلاء کے لیے ترکی نے اپنی کوششیں تیز کرتے ہوئے روس، ایران اور امریکا سے رابطے کیے ہیں۔ دریں اثناء حلب میں شدید لڑائی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔
اشتہار
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے شام کی حکومتی فورسز پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے گزشتہ روز ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی تک اس کوشش میں ہیں کہ حلب کے باقی ماندہ علاقے سے شہریوں کے محفوظ انخلاء کو ممکن بنایا جا سکے۔
انہوں نے حلب کی صورتحال کو ’انتہائی نازک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بدھ کی رات روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کریں گے۔ انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’جنگ بندی کے لیے ترکی کی طرف سے کی جانے والی ثالثی کی کوششیں حلب کے معصوم لوگوں کی آخری امید ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’حلب میں پھنسے شہریوں کو فوری طور پر محفوظ راستہ فراہم کیا جانا ضروری ہے۔ مشرقی حلب میں موجود تمام شہریوں کو ایک ساتھ نکلنے کی اجازت دی جائے۔ اسد فورسز مشرقی حلب میں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہیں اور ہم اس حکومتی قتل و غارت پر خاموش نہیں رہ سکتے۔‘‘
حلب: چمکتا دمکتا شہر کھنڈرات میں تبدیل
حلب، جو کبھی شام کا ایک کاروباری مرکز ہوا کرتا تھا، اب کھنڈرات پر مشتمل ایک صحرا میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اسد کی فوج اور باغیوں کے درمیان لڑائی نے ایک ہنستے بستے شہر کو کیسے بدل ڈالا ہے، اس کی ایک جھلک، اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/WYD Krakow2016
بمباری کے ہولناک اثرات
جہاں حلب شہر کا ایک حصہ بدستور صدر بشار الاسد کی فوج کے کنٹرول میں ہے، وہاں باغی دوسرے حصے کا دفاع جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں جانب بے پناہ تباہی ہوئی ہے۔ اس تصویر میں شہر کا بنی زید نامی علاقہ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Ourfalian
کھنڈرات کے پہاڑ
دُور دُور تک پھیلی اور قطار در قطار بنی رہائشی عمارات راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ہر بمباری کے بعد امدادی کارکن ملبے تلے دب جانے والے انسانوں کی تلاش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/I. Ebu Leys
امدادی کارکن مسلسل مصروف
اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے اسد کے فوجی دستوں کی جانب سے کیے جانے والے ایک حملے کے بعد باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں ملبہ ہٹایا جا رہا ہے۔ بعض اوقات امدادی کارکن خالی ہاتھوں سے ملبہ ہٹا کر لوگوں کو باہر نکالنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Sultan
دھوئیں کے ساتھ اسد کی فوج کا مقابلہ
باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں حکومتی افواج کی پیشقدمی کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے مثلاً حلب کے مشہد نامی علاقے میں ٹائر جلائے جا رہے ہیں تاکہ دبیز دھواں حملہ آوروں کی دیکھنے کی صلاحیت کو کسی قدر محدود بنا سکے۔
تصویر: picture-alliance/AA/B. el Halebi
بے گھر لوگ سر پر چھت کی تلاش میں
سر پر چھت سے محروم ہو جانے والے شہری اپنے لیے کوئی نیا ٹھکانہ تلاش کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ بے گھر شہری خیموں میں ہی نہیں بلکہ تباہ شُدہ موٹر گاڑیوں میں بھی رات بسر کر لیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/A.H. Ubeyed
بھاگ کر آنے والوں کے لیے رہائشی مکانات
شامی حکومت نے باغیوں کے زیر انتظام علاقوں میں بسنے والے شہریوں سے یہ کہہ رکھا ہے کہ وہ اُن علاقوں کو چھوڑ کر نکل آئیں۔ ایسے شہریوں کے لیے حلب شہر کے شمال میں نئی رہائشی عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP-Photo
مساجد بھی نشانہ
شام میں گزشتہ کئی سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران عبادت خانے بھی محفوظ نہیں رہے۔ شہر حلب کے قفر حمرہ نامی علاقے کی عمر بن خطاب مسجد کا حال اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/T. el Halebi
رات کو بھی سکون نہیں
رات کو بھی لڑائی جاری رہتی ہے۔ وقفے وقفے سے سیاہ دھوئیں کے بادل آسمان کی جانب بلند ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے حکومتی افواج کے اسلحے کے ایک گودام کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kurab
کھنڈرات کے پاس ہی باغیچہ
اس ساری تباہی کے بیچوں بیچ اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنا بھی انسانوں کی مجبوری ہے مثلاً عبداللہ الکتماوی نے یہ ایک چھوٹا سا کچن گارڈن بنا رکھا ہے، جہاں وہ اپنے استعمال کی سبزی ترکاری پیدا کر لیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. El Halabi
روٹی کے انتظار میں
شہر میں ایسے مناظر اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ منظر حلب کے ایک شمالی علاقے کا ہے، جس پر باغیوں کا کنٹرول ہے۔ یہ لوگ روٹی جیسی بنیادی اَشیائے خوراک کے حصول کے لیے دیر تک قطاریں بنائے کھڑے رہتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Al-Masri
جنگ میں وقفہ
اس طرح کے جھولے شہر میں کبھی ایک جگہ دکھائی دیتے ہیں تو کبھی کسی دوسری جگہ۔ یہ جھولے غنیمت ہیں کہ ان کی وجہ سے بچے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی لیکن جنگ کو بھول جاتے ہیں۔ یہ تصویر اس سال جولائی کے اوائل میں اُتاری گئی۔
تصویر: picture-alliance/AA/A.H. Ubeyed
جنگ کا کھیل
بچے جنگ کے مناظر کے عادی ہو چکے ہیں، اتنا زیادہ کہ وہ کھیل میں بھی جنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس تصویر میں حلب شہر کے باغیوں کے زیر انتظام علاقے کے بچے پلاسٹک کے ہتھیاروں سے کھیل رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi
گرجا گھرمیں عبادت
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ سب کچھ ہی تباہ ہو چکا ہے۔ کیتھولک مسیحیوں کا یہ عبادت خانہ ابھی تک بمباری کا نشانہ بننے سے محفوظ رہا ہے۔ اسی گرجا گھر میں حال ہی میں سینکڑوں نوجوانوں نے ورلڈ یوتھ کانگریس کا جشن منایا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/WYD Krakow2016
13 تصاویر1 | 13
روس کے بعد صدر اسد کا دوسرا بڑا حمایتی ملک ایران ہے۔ جنگ بندی معاہدے کے لیے ایران نے نئی شرائط عائد کر دی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ جنگ بندی معاہدے کو فوری نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی سلسلے میں آج ترک وزیر خارجہ مولُود چاوُش اولو نے اپنے ایرانی اور امریکی ہم منصبوں کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے تاکہ کسی نہ کسی طریقے سے فائربندی معاہدے کو نافذالعمل بنایا جا سکے۔ ترک وزیر خارجہ آج ہی اپنے روسی ہم منصب سے بھی بات کریں گے۔
ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا، ’’گزشتہ روز یہ طے پایا تھا کہ سب سے پہلے عام شہریوں کو نکلنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومتی فوج اور دوسرے گروپ اس کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔‘‘
دوسری جانب روسی وزیر دفاع کا انٹرفیکس نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئےکہنا تھا کہ آج طلوع آفتاب سے پہلے باغیوں نے حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جبکہ شامی فورسز نے ان حملوں کو پسپا کیا ہے۔
روسی وزارتِ دفاع کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شامی شہر حلب میں باغی اب مزید محض دو اعشاریہ پانچ مربع کلومیٹر کے علاقے پر قابض ہیں اور زیادہ سے زیادہ مزید دو یا تین روز تک مزاحمت کر پائیں گے۔
دریں اثناء اقوام متحدہ کی شام کے لیے انکوائری کمیشن ( سی او آئی) نے کہا ہے کہ انہیں ایسی رپورٹیں بھی موصول ہو رہی ہیں، جن کے مطابق باغی عام شہریوں کو ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور انہیں حلب میں اپنے زیرِ قبضہ علاقوں سے فرار ہونے سے روک رہے ہیں۔