شہری حقوق: جرمن چانسلر کی مزید ڈیٹا تحفظ کی تجویز
16 جولائی 2013اس بارے میں انہوں نے گزشتہ اتوار کو ٹیلی وژن چینل ’اے آر ڈی‘ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ایک بین الاقوامی معاہدے کا مطالبہ کیا۔
قبل ازیں وفاقی جرمن وزیر انصاف زابینے لوئٹ ہوئیزر شنارن برگر نے اخبار فرانکفرٹر الگمائنے میں بطور مہمان ایک آرٹیکل میں ڈیٹا کے تحفظ کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ وفاقی جرمن حکومت کا خیال ہے کہ اس ضمن میں بین الاقوامی قوانین کئی عشروں سے کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔
بوسیدہ قواعد و ضوابط
جرمن حکومت شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی قوانین میں ایک اضافی پروٹوکول شامل کروانا چاہتی ہے۔ 1966ء سے چلے آ رہے معاہدے میں انسانی حقوق سے متعلق اعلامیے کو واضح اور جامع ہونا چاہیے۔ اس متن میں یہ درج ہے کہ کسی کی نجی زندگی میں، خاندانی معاملات میں، گھر میں یا کسی کی خط و کتابت میں کسی دوسرے کو غیر قانونی اور بے جا مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ متن تیار کرنے والے کو چاہیے تھا کہ وہ گھروں میں خفیہ طور پر جاسوسی کے آلات نصب کرنے، ٹیلی فون لائن ٹیپ کرنے یا ڈاک خانوں کے عقبی کمروں میں خطوں کو کھولنے وغیرہ جیسی ناجائز کارروائیوں کو بھی ذہن میں رکھتا۔
اقوام متحدہ نے الیکٹرانک ڈیٹا پروسیسنگ کے جدید دور میں ڈیٹا کے تحفظ کے اہم معاملے پر بڑے سالوں بعد تاخیر کے ساتھ توجہ دینا شروع کی۔ 1990ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ڈیٹا تحفظ سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی منظوری دی۔ اس کے تحت تمام ممالک کو اس امر کا پابند بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں ڈیٹا تحفظ کے قومی قوانین منظور کریں۔ متعلقہ حکومتوں کا یہ فرض بنتا تھا کہ ڈیٹا تک رسائی کی وجوہات بالکل واضح طور پر بیان کریں اور ان تک رسائی کے مقاصد بالکل جائز ہوں۔
اس قانون کے تحت اس امر کو یقینی بنانا چاہیے تھا کہ ڈیٹا اسٹوریج کو مخفی رکھنے کی بجائے اسے عوامی بنایا جائے یا متعلقہ شخص کو اس بارے میں آگاہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ موجودہ متن میں یہ امر واضح طور سے درج ہے کہ ان قوانین کی پاسداری کرنے والے ممالک کے مابین ڈیٹا کا تبادلہ ممکنہ حد تک آزاد رکھا جائے گا‘۔
قوانین کے مؤثر ہونے کا معاملہ مشکوک
الیکٹرانک کمیونیکیشن کے حوالے سے کیا طرز عمل اختیار کیا جائے، اس بارے میں متن کے اندر کوئی ٹھوس اور واضح اصول شامل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے ان قوانین کی منظوری کے تین سال بعد پہلی بار اس کے انٹرنیٹ ویب سائیٹ کو عوام کے لیے قابل رسائی بنایا گیا۔
ان وجوہات کی بناء پر کئی سالوں سے ڈیٹا تحفظ کے لیے سرگرم عناصر انٹر نیٹ دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے حقوق سے متعلق ایک نئے معاہدے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 2005ء میں مختلف ممالک کے ڈیٹا تحفظ کے نگران اداروں، این جی اوز اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے ڈیٹا تحفظ سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس میں حصہ لیا تھا اور اس موقع پر اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ بین الاقوامی معاہدے کا ایک ایسا متن تیار کرے، جس میں ڈیٹا تحفظ کے حقوق اور پرائیویسی حقوق کو مکمل طور پر قابل نفاذ انسانی حقوق قرار دیتے ہوئے تفصیل سے شامل کیا جائے۔
مسودے پر کام جاری ہے
وفاقی جرمن حکومت کی طرف سے نئے بین الاقوامی معاہدے کا مطالبہ امریکی خفیہ ایجنسی NSA کے حالیہ اسکینڈل کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ وزارت انصاف کے ذرائع کے مطابق یہ وزارت مطلوبہ بین الاقوامی قوانین کے ایک مسودے پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت خفیہ ایجنسیوں کی انٹر نیٹ مواصلاتی ڈیٹا تک رسائی کے بارے میں بھی واضح ضوابط شامل ہوں گے۔ تاہم اب تک اس بارے میں کوئی ٹھوس مسودہ تیار نہیں ہوا ہے۔ اس عمل میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔