شیخ رشید کی گرفتاری، ’سافٹ ویئر‘ اپ ڈیٹ کی کوشش؟
2 فروری 2023شیخ رشید کی گرفتاری کے بعد جہاں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان الزامات کا تبادلہ ہو رہا ہے، وہیں ملک کے کئی حلقوں میں یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ آخر سابق وزیر داخلہ کو گرفتار کیوں کیا گیا؟ کچھ کے خیال میں حکومت پی ٹی آئی کے ہاتھ پیر باندھنا چاہتی ہے جب کہ کچھ کی رائے یہ ہے کہ یہ گرفتاریاں ن لیگ اور جی ایچ کیو کا مشترکہ کام ہے۔ کچھ حلقے ایسے بھی ہیں، جو ان گرفتاریوں کو صرف حکومت کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے قتل کی سازش کرنے سے متعلق بیان پر شیخ رشید کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ آبپارہ میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس کےبعد پولیس نے سابق وفاقی وزیر کو بدھ کی رات گرفتار کر لیا تھا۔ جمعرات کو اسلام آباد کی ایک عدالت نے شیخ رشید کو دو روزہ جسمانی ریمانڈپر پولیس کے حوالے کر دیا۔
مشترکہ کام
پی ٹی آئی کا دعوٰی ہے کہ شیخ رشید کی گرفتاری میں جی ایچ کیو اور موجودہ حکومت دونوں کا ہاتھ ہے۔ پارٹی کے رہنما اور سابق مشیر برائے سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے خیال میں یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا مشترکہ اقدام ہے، جو ان کی حواس باختگی کی عکاسی کرتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا خیال ہے کہ وہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے پی ٹی آئی کو ڈرانے میں کامیاب ہوجائے گی۔‘‘
’سافٹ ویئر اپ ڈیٹ نہیں ہو گا‘
جمشید اقبال چیمہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ان ہتھکنڈوں سے ڈرنے والی نہیں۔ انہوں نے کہا، ''ملک کے طاقتور حلقوں کا خیال ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے لوگوں کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کر لیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عمران ریاض، جمیل فاروقی، شہبازگل، اعظم سواتی اور فواد چوہدری کو گرفتار کیا اور کسی کا بھی سافٹ ویئر اپ ڈیٹ نہیں ہوا۔ سب اپنے موقف پر قائم ہیں۔ طاقت ور حلقے یہ بات سمجھیں لیں کہ اس طرح سے سافٹ ویئراپ ڈیٹ نہیں ہوگا۔‘‘
خیال رہے کہ کسی شخص کو گرفتار کر کہ پھر اسے اپنی مرضی کے مطابق کوئی بیان لینے یا اس کی زبان بندی کے عمل کو استہزائیہ طور پر 'سافٹ وئیر اپڈیٹ‘ کا نام دیا جاتاہے۔
جمشید اقبال چیمہ کے مطابق پی ٹی آئی ان گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہے اور احتجاج کا یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔
کوئی انتقام نہیں
مسلم لیگ نون اس بات کی تردید کرتی ہے کہ شیخ رشید کی گرفتاری سیاسی انتقام لینے کے لیے کی گئی ہے۔ پارٹی کے رہنما اور سابق گورنر خیبر پختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' مسئلہ یہ بالکل سادہ ہے۔ شیخ رشید نے قانون کی خلاف ورزی کی۔ ان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج ہوئے اور ان کو گرفتار کیا گیا۔یہ حکومت نے اپنے طور پر کیا ہے، اس کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں، جو اپنی حدود میں رہ کر کام کر رہی ہے۔‘‘
اقبال ظفر جھگڑا نے اس بات کی بھی بھرپور تردید کی کہ ان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مل کر کرپی ٹی آئی کے خلاف انتقامی کاروائی کر رہی ہے۔ '' ہم اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ساز باز کریں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی آئینی حدود اسے سیاست میں ملوث ہونے سے روکتی ہیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کچھ کرنا ہوتا تو آج میاں نواز شریف ملک سے باہر نہ بیٹھے ہوتے۔ ہماری تاریخ رہی ہے کہ ہم نے ہمیشہ آئینی پوزیشن لی ہے اور ملک میں آئین کی بالادستی کے لیے ہر اس ادارے سے ٹکر لی ہے، جس نے اپنی آئینی حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ نون یہ سمجھتی ہے کہ اس کو اگلے انتخابات کے لیے برابری کا میدان میسر نہیں، جو وہ شیخ رشید اور دوسری گرفتاریوں کے ذریعے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' جس طرح 2018 ء کے انتخابات سے پہلے ن لیگ کے حالات تھے، اسی طرح کے حالات ن لیگ پی ٹی آئی کے لئے چاہتی ہے۔ اور اس کے لئے مزید گرفتاریاں کی جا سکتی ہیں اور عمران خان کو نااہل بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔‘‘
حبیب اکرم کے مطابق ن لیگ کی لیول پلئینگ فیلڈ کی یہ تعریف ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگوں کے بالکل ہاتھ پیر باندھ دیئے جائیں۔ ان کے لوگوں کو گرفتار کیا جائے اور عمران خان کو نااہل کیا جائے تاکہ نون لیگ کو گراؤنڈ بالکل کھلا مل جائے۔