پاکستان مسلم لیگ نون کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبہ پنجاب میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ تحریک انصاف کی حمایت سے اسپیکر منتخب ہو گئے۔ یوں پنجاب میں نون لیگ کی حکومت بننے کے امکانات قریب ختم ہو گئے ہیں۔
اشتہار
پاکستان کے صوبوں خیبر پختونخوا اور سندھ میں آج گزشتہ ماہ کے پارلیمانی انتخابات کے بعد وزرائے اعلیٰ کا انتخاب بھی کر لیا گیا ہے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت حاصل تھی۔ پیپلز پارٹی نے مراد علی شاہ کو منصب وزارتِ اعلیٰ پر برقرار رکھا اور وہ باآسانی منتخب ہو گئے۔
شمال مغربی صوبے خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کو عددی برتری حاصل تھی۔ تحریک انصاف نے اس مرتبہ محمود خان کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔ محمود خان بھی باآسانی وزیر اعلیٰ منتخب ہونے میں کامیاب رہے۔
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے آج عبدالقدوس بزنجو کو نیا اسپیکر منتخب کیا ہے۔ بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی اتحاد بنائے ہوئے ہے۔
پنجاب: شیر، بلا اور ٹریکٹر
اُدھر پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی میں بھی نئے اسپیکر کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور پاکستان مسلم لیگ قاف کے رہنما پرویز الہی نے پاکستان مسلم لیگ نون کے امیدوار کو شکست دی ہے۔ الہی کو عمران خان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی حمایت حاصل تھی۔
اس صوبے میں تحریک انصاف اور نواز لیگ کی نشستوں کی تعداد میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ تاہم پرویز الہیٰ کو پی ٹی آئی اور قاف لیگ کے امیدواروں کی تعداد سے بھی زیادہ ووٹ ملے۔ مسلم لیگ نون کے قریب پندرہ ارکان نے بھی انہیں ووٹ دیے جس کے بعد اس جماعت میں فارورڈ بلاک بن جانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔
پرویز الہیٰ نے مسلم لیگ نون کے ارکان کے شدید احتجاج کے دوران اسپیکر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔
سوشل میڈیا پر ردِ عمل
سوشل میڈیا پر پنجاب میں مسلم لیگ نون کے مسلسل دس سالہ اقتدار کے خاتمے اور تحریک انصاف کی جانب سے پرویز الہیٰ کو اسپیکر نامزد کرنے کے حوالے تعریف اور تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
تحریک انصاف کے زیادہ تر حامی پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کی جیت کو عمران خان کی 'سیاسی بصیرت‘ قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران خان کا ایک ایسے شخص کی حمایت کرنا، جسے وہ ماضی میں خود ہی ’ڈاکو‘ قرار دیتے رہے ہیں، محض روایتی مفاد پرستی کی سیاست کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔
صحافی ندیم ملک نے پوچھا، ’’پرویز الہیٰ 201 ووٹ لے کر اسپیکر منتخب۔ اضافی ووٹ کہاں سے آئے؟‘‘ ایک صارف نے لکھا، ’’یہ ڈک ورتھ لوئیس فارمولے کا نتیجہ ہے۔‘‘
ایک صارف کا کہنا تھا کہ شہباز شریف دس برس قبل مسلم لیگ قاف کے ووٹ توڑ کر اقتدار میں آئے تھے، اب انہیں خود ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔
جوتا کس نے پھینکا؟
حالیہ کچھ عرصے میں کئی ملکوں کے سربراہان اور سیاستدانوں پر جوتا پھینکے جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ شہرت سابق امریکی صدر بُش پر پھینکے گئے جوتے کو ملی اور تازہ شکار سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف بنے۔
تصویر: AP
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر جوتا اُن کے عراقی کے دورے کے دوران پھینکا گیا۔ یہ جوتا ایک صحافی منتظر الزیدی نے چودہ دسمبر سن 2008 کو پھینکا تھا۔
تصویر: AP
سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ
دو فروری سن 2009 کو لندن میں سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ پر ایک جرمن شہری مارٹن ژانکے نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ جوتا جیا باؤ سے کچھ فاصلے پر جا کر گرا تھا۔
تصویر: Getty Images
سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد
ایرانی صوبے مغربی آذربائیجدان کے بڑے شہر ارومیہ میں قدامت پسند سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد پر جوتا پھینکا گیا تھا۔ یہ واقعہ چھ مارچ سن 2009 کو رونما ہوا تھا۔ احمدی نژاد کو سن 2006 میں تہران کی مشہور یونیورسٹی کے دورے پر بھی جوتے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تصویر: fardanews
سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ
چھبیس اپریل سن 2009 کو احمد آباد شہر میں انتخابی مہم کے دوران کانگریس پارٹی کے رہنما اور اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ پر ایک نوجوان نے جوتا پھینکا، جو اُن سے چند قدم دور گرا۔
تصویر: Reuters/B. Mathur
سوڈانی صدر عمر البشیر
جنوری سن 2010 میں سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے ’فرینڈ شپ ہال‘ میں صدر عمر البشیر پر جوتا پھینکا گیا۔ سوڈانی صدر کا دفتر اس واقعے سے اب تک انکاری ہے، لیکن عینی شاہدوں کے مطابق یہ واقعہ درست ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Hamid
ترک صدر رجب طیب ایردوآن
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن پر فروری سن 2010 میں ایک کرد نوجوان نے جوتا پھینک کر کردستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ کرد شامی شہریت کا حامل تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/O. Akkanat
سابق پاکستانی صدر آصف علی زرداری
پاکستان کے سابق صدرآصف علی زرداری کے برطانوی شہر برمنگھم کے دورے کے موقع پر ایک پچاس سالہ شخص سردار شمیم خان نے اپنے دونوں جوتے پھینکے تھے۔ یہ واقعہ سات اگست سن 2010 کا ہے۔
تصویر: Getty Images
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر
چار ستمبر سن 2010 کو سابق برطانوی وزیر ٹونی بلیئر کو ڈبلن میں جوتوں اور انڈوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ڈبلن میں وہ اپنی کتاب ’اے جرنی‘ کی تقریب رونمائی میں شریک تھے۔
تصویر: Imago/i Images/E. Franks
سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ
چار نومبر سن 2010 کو کیمبرج یونیورسٹی میں تقریر کے دوران سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ پر جوتا پھینکا گیا۔ جوتا پھینکنے والا آسٹریلیا کا ایک طالب علم تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف
لندن میں ایک ہجوم سے خطاب کے دوران سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ واقعہ چھ فروری سن 2011 کو پیش آیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق تائیوانی صدر ما یِنگ جُو
تائیوان کے سابق صدر ما یِنگ جُو پر اُن کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہجوم میں سے کسی شخص نے جوتا آٹھ ستمبر سن 2013 کو پھینکا۔ تاہم وہ جوتے کا نشانہ بننے سے بال بال بچ گئے۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف
پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کو گیارہ مارچ سن 2018 کو ایک مدرسے میں تقریر سے قبل جوتا مارا گیا۔ اس طرح وہ جوتے سے حملے کا نشانہ بننے والی تیسری اہم پاکستانی سیاسی شخصیت بن گئے۔