شیشہ نوشوں کو انتباہ، حقہ پینا سگریٹ سے کہیں زیادہ مہلک
صائمہ حیدر یولیا ویرگن
4 جنوری 2018
شیشہ بار میں پھیلی مختلف خوشبوئیں، بار کا ماحول اور رنگین و جدید طرز کے حقوں سے لطف اندوز ہوتے نوجوان، بظاہر تو یہ سارا منظر بہت پُرکشش لگتا ہے لیکن طبی ریسرچ کے مطابق حقہ نوشی سگریٹ پینے سے کہیں زیاہ مہلک ہے۔
اشتہار
نوجوانوں میں ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ شیشہ نوشی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں۔ انہیں شیشہ باروں میں بیٹھ کر ذائقے دار تمباکو پینا گلیمر سے بھرپور نظر آتا ہے۔ بلکہ آج کل تو نوجوان لڑکے لڑکیاں شیشہ نوشی کو سگریٹ نوشی کا متبادل سمجھتے ہوئے اسے بے ضرر بھی گردانتے ہیں۔
جرمنی میں ایک ہیلتھ انشورنس ادارے کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دسویں کلاس کا ہر دوسرا طالب علم حقہ نوشی کر چکا ہے۔ یہ معلومات سات ہزار طالب علموں سے کیے گئے سوالات کے نتائج پر مرتب کی گئی ہے جس کے مطابق شیشہ پینے والے طلبا و طالبات اِن سات ہزار کا پندرہ فیصد بنتے ہیں۔
شیشہ کیفے یا شیشہ باریں مش رومز کی طرح پھلتی پھولتی جا رہی ہیں اور نوجوانوں کی وقت گزاری کا بہترین ذریعہ بن چکی ہیں لیکن ڈاکٹروں کے مطابق یہ نہ صرف راہ فرار اختیار کرنا ہے بلکہ صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ بھی۔
یونیورسٹی ہاسپٹل ڈووسلڈورف کے ڈاکٹر سوین ڈرائر کا کہنا ہے کہ شیشہ نوشی انسانی صحت کے لیےکم و بیش اُتنی ہی نقصان دہ ہے جتنا کہ اسموکنگ کرنا۔ اگر آپ روزانہ ایک حقہ پیتے ہیں تو یہ سمجھ لیجیے کہ یہ دس سگریٹ پینے کے برابر ہے۔
ڈاکٹر سوین ڈرائر کہتے ہیں کہ حقہ نوشی سے کاربن مونو آکسائڈ کا زہر پھیلنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سوین ڈرائر کے بقول، ’’ایسے کم سنجیدہ نوعیت کے مریضوں کو متلی، الٹی اور سر چکرانے کی شکایت ہو سکتی ہے اور بعض اوقات تو نوبت بے ہوشی تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘
ایسے مریض جن کی شیشہ بار میں تفریح کا اختتام مذکورہ بالا شکایات پر ہوتا ہے وہ ڈاکٹر سوین ڈرائر جیسے ہی کسی طبیب کے پاس لائے جاتے ہیں۔ اس طرح کے زہر کا علاج صرف صاف آکسیجن ہوتی ہے۔ زیادہ سنجیدہ نوعیت کا علاج پریشر چیمبرز میں کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مختلف پھلوں کے ذائقوں اور دل موہ لینے والی خوشبوؤں سے بھر پور شیشے کا مزا وقتی لیکن اس سے ہونے والے نقصانات بڑے اور طویل المیعاد ہوتے ہیں۔
پردہ اسکرین پر مقبول ترین اسموکرز
تمباکو کا کثیف دھواں اڑانا کسی زمانے میں ہالی وڈ کے ہیروز کا ایک منفرد انداز ہوا کرتا تھا۔ یہ ایکٹرز اپنی اداکاری کو مؤثر اور جاندار بنانے کے لیے اس کا سہارا لیا کرتے تھے۔ کچھ اداکار تو صرف اس وجہ سے ہی مقبول ہوئے۔
تصویر: picture alliance/KPA
مختلف انداز کا ہیرو
جیمز ڈین نے اپنی مخصوص اداکاری سے ایک نسل کو متاثر کیا۔ انہوں نے 1950ء کے پرانے زمانے کے انداز کو اپنے باغیایانہ طرز اداکاری سے تبدیل کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سگریٹ کا سہارا انتہائی مؤثر انداز میں لیا۔ وہ ہالی وڈ کے پہلے ’Bad Boy‘ بن کر ابھرے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
پرسکون انداز
سگریٹ نوشی کرتے ہوئے ہمفری بوگارٹ سے زیادہ پرسکون شاید ہی کوئی اور ہیرو لگا ہو۔ پچاس کی دہائی میں انہوں نے اپنی اداکاری کو لوہا منوا لیا تھا۔ ان کے سگریٹ پینے کا انداز اتنا مقبول ہوا کہ معلوم ہوتا تھا کہ اگر وہ اپنے کردار کو نبھاتے ہوئے سگریٹ نوشی کا سہارا نہ لیں تو وہ کردار نہیں نبھا سکیں گے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
اسٹائلش خاتون
ساٹھ کی دہائی میں ہالی وڈ کی فلموں میں خواتین کا ایک منفرد اسٹائل متعارف کرایا گیا، جس میں پیروئنز خوبصورت دیدہ زیب لباس میں انتہائی مہنگے سگریٹ پیتے نظر آئیں۔ اس زمانے کی دلکش اداکارہ آؤڈری ہپبرن نے فیشن ایبل اپر کلاس سوسائٹی میں اسموکنگ کو متعارف کرانے میں اہم کردار کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چین اسموکر
اخبار پڑھتے، گاڑی چلاتے، فلرٹ کرتے یا سیریل کلر کی تلاش کرتے ہوئے۔ جو کچھ بھی ہو لیکن معروف اداکار ژاں پال بیلونڈو سگریٹ کے بغیر نظر ہی نہیں آتے تھے۔ وہ چین اسموکر تھے اور انہوں نے اداکاری کے دوران بھی تمباکو نوشی کا اپنا انداز بنا رکھا تھا۔
تصویر: picture alliance/KPA
باوقار اور جاذب نظر ہیرو
’جیمز بونڈ‘ ہالی وڈ کی ایک تاریخ سیریز ثابت ہوئی ہے۔ شین کورنی نے بھی 007 کا کردار نبھایا تھا۔ دیگر ہیروز کی طرح انہوں نے بھی اس کردار میں جان ڈالنے کے لیے تمباکو نوشی کا سہارا لیا۔ 2002ء میں امریکا میں یہ بحث شروع ہوئی تھی کہ آیا فلموں میں کرداروں کو سگریٹ نوشی کرتے دیکھایا جانا چاہیے یا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Images
نہ تھکنے والا ذہین انسان
شرلاک ہومز 1939 سے کئی اہم سنسنی خیز اور پراسرار کیس سلجھا چکا ہے۔ اس فلم کے مرکزی کردار بھی تمباکو کے دھوئیں میں مزید پرسرار ہوتے رہے ہیں۔ راجر مور نے بھی شرلاک ہومز کا کردار نبھایا ہے۔ ناقدین کے بقول اس کردار میں ان کا تمباکو پینا سنسنی خیزی کو بڑھانے میں ایک انتہائی اہم جزو ثابت ہوا۔
تصویر: picture-alliance/KPA
جذبات برانگخیتہ کرنے والی ’اسکول گرل‘
اولیویا نیوٹن جان کا انداز نرالا تھا۔ میوزیکل رومنٹیک کامیڈی فلم ’گریس‘ میں انہوں نے سگریٹ منہ میں لیے ایک انوکھا انداز متعارف کرایا۔ ناقدین کے مطابق اسی کردار نے انہیں امر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/Mary Evans Picture Library/R. Gran
اداکاری ایسی، جو حقیقی معلوم ہو
’پلپ فکشن‘ نامی فلم میں اوما تھورمن نے منشیات کی عادی ایک خاتون کا کردار نبھایا تھا۔ ایک مجرم کی اہلیہ کے کردار میں انہوں نے ناقدین سے بھی داد بٹوری تھی۔ نشے کی لت میں مبتلا ہونے کی اداکاری میں انہوں نے جس انداز میں سگریٹ پیا، وہ ہالی وڈ میں اب بھی سراہا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/KPA
دھوئیں میں اٹی زندگی
روساریو ڈاؤسن نے ’Sin City‘ میں اپنی اداکاری پر کافی داد وصول کی۔ اس فلم کے پرسرار ماحول میں انہوں نے تمباکو کے دھوئیں کا انتہائی عمدگی سے استعمال کیا۔ ناقدین کے مطابق اگر اس فلم میں وہ مسلسل سگریٹ نہ پیتیں تو شائد یہ فلم اپنا اثر کھو دیتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Splendid Film/Sony
نیا دور لیکن یادیں پرانی
Mad Man نے ساٹھ کی دہائی کی عکاسی کو دوبارہ یاد کرا دیا ہے۔ اُس دور میں فلمی کرداروں کا سگریٹ پینا ایک معمول کی بات تھا۔ تاہم اب کیلی فورنیا لیبر قوانین کے مطابق اسٹوڈیوز میں صرف ’ہربل سگریٹ‘ ہی پیے جا سکتے ہیں۔