شینزو آبے نے الیکشن جیت لیا، مگر لوگوں کے دل نہ جیت پائے
عابد حسین
23 اکتوبر 2017
جاپان میں اتوار بائیس اکتوبر کے پارلیمانی الیکشن میں جاپانی وزیراعظم بھاری کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت اور حلیف پارٹی کو اس الیکشن میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی ہے۔
اشتہار
جاپانی سیاست کے مبصرین کا کہنا ہے کہ اتوار کے انتخابات میں شینزو آبے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن وہ اپنے عوام کے دل اور دماغ کو جیتنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ جاپانی ووٹرز شاکی ہیں کہ شینزو آبے اُن کے ملک کے امن پسندانہ دستورکی بنیادی روح کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
جاپان کی سرکاری نیوز ایجنسی کیوڈو کے کرائے گئے رائے عامہ کے ايک جائزے میں اکاون فیصد شرکاء نے واضح کیا کہ وہ شینزو آبے پر اعتماد نہیں کرتے۔ ایک اور آزاد ادارے اساہی شمبُون کے رائے عامہ کے جائزے کے مطابق 47 فیصد جاپانی عوام کا خیال ہے کہ اُن کے ملک پر شینزو آبے نہیں بلکہ کوئی اور حکمرانی کر رہا ہے۔
جاپانی ووٹرز کو ایک اور پریشانی یہ بھی لاحق ہے کہ اپوزیشن پوری طرح بکھر کر رہ گئی ہے اور صرف آبے اور اُن کی سیاسی جماعت ہی ملکی سیاسی منظر پر متحد دکھائی دیتی ہے۔ بائیس اکتوبر کے الیکشن میں بھی وزیراعظم کی قدامت پسند رجحان رکھنے والی سیاسی جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی نے اپوزیشن کی سیاسی پارٹیوں کو پوری طرح تتربِتر کر دیا ہے۔
اکتوبر کے انتخابات سے ایک دو ماہ قبل ٹوکیو شہر کی خاتون گورنر یوریکو کوئکے نے ایک نئی سیاسی جماعت بنائی۔ اس کا نام ’پارٹی آف ہوپ‘ ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بظاہر کوئکے کا انتخابی منشور بھی لبرل ڈیمیوکریٹک پارٹی سے ملتا جلتا ہے لیکن عوام کو اگلے الیکشن تک اس پارٹی کی شکل میں ایک نئی قیادت اور تبدیلی میسر آ سکتی ہے۔ حالیہ الیکشن میں یہ تیسری پوزیشن پر آئی ہے اور پارلیمنٹ میں چالیس سے زائد سیٹیں حاصل کر سکی ہے۔
شینزو آبے کی مخالف بائیں بازو کی بڑی اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے خراب حال ہونے کی ایک بڑی وجہ اُس کے کئی ورکرز کی خاتون سیاستدان کی نئی سیاسی جماعت میں شمولیت بھی خیال کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بائیں بازو کی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے کئی اہم رہنماؤں نے کانسٹیٹیوشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کر دی ہے۔ اس نئی سیاسی پارٹی کو تازہ الیکشن میں دوسری پوزیشن حاصل ہوئی ہے اور یہ پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں ساٹھ کے قریب نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔