یورپی عدالت نے حال ہی میں فیصلہ دیا تھا کہ جرمنی، ڈنمارک اور دیگر شینگن ریاستوں کے پاس بارڈر کنٹرول کے سلسلے کی مدت بڑھانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
اشتہار
شینگن معاہدے پر دستخط کرنے والے 26 ممالک کے درمیان لوگ بغیر کسی سرحدی کنٹرول کے آزادی سے سفر کر سکتے ہیں۔ بارڈر کنٹرول صرف اسی صورت میں دوبارہ لاگو کیا جا سکتا ہے، جب سلامتی کے حوالے سے بہت ہی سنجیدہ خطرات موجود ہوں۔
یورپی یونین عدالت نے حال ہی میں فیصلہ دیا تھا کہ جرمنی، ڈنمارک اور دیگر شینگن ریاستوںکے پاس بارڈر کنٹرول کے اس سلسلے کی مدت بڑھانے کی کوئی وجہ نہیں ہے، جس کا دوبارہ اطلاق 2015ء میں کیا گیا تھا لیکن یورپین کمیشن اس فیصلے پر عملدرآمد میں ناکامی پر اقدامات کا ارادہ نہیں رکھتا۔
سن 2015ء میں شام، عراق اور افغانستان جیسے ممالک سے بڑی تعداد میں لوگوں کے یورپ کا رُخ کرنے کے بعد جرمنی، آسٹریا، ناروے، سویڈن، ڈنمارک اور فرانس نے مہاجرت اور دہشت گردی وغیرہ کے خدشات و خطرات کا اظہار کرتے ہوئے بارڈر کنٹرول پر عملدرآمد شروع کر دیا تھا۔ اب ان ممالک نے مزید چھ ماہ اس سلسلے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دنیا بھر میں خطرات سے بھاگتے ہوئے مہاجرین کی بے بسی
جنگ، ظلم و ستم، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے سبب دنیا بھر میں تقریباﹰ 82.4 ملین افراد تحفظ کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران سب سے زیادہ تکلیف کا سامنا بچوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: KM Asad/dpa/picture alliance
سمندر میں ڈوبتا بچہ
یہ بچہ صرف دو مہینے کا تھا جب ہسپانوی پولیس کے ایک غوطہ خور نے اسے ڈوبنے سے بچایا تھا۔ گزشتہ ماہ ہزاروں افراد نے مراکش سے بحیرہ روم کو عبور کرتے ہوئے یورپ پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ اس تصویر کو خود مختار ہسپانوی شہر سبتہ میں مہاجرین کے بحران کی نمایاں عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Guardia Civil/AP Photo/picture alliance
کوئی امید نظر نہیں آتی
بحیرہ روم دنیا کے خطرناک ترین غیرقانونی نقل مکانی کے راستوں میں سے ایک ہے۔ بہت سے افریقی پناہ گزین سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے میں ناکامی کے بعد لیبیا میں پھنس جاتے ہیں۔ طرابلس میں یہ نوجوان، جن میں سے بہت سے ابھی بھی نابالغ ہیں، لمحہ بہ لمحہ اپنی زندگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کو اکثر مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: MAHMUD TURKIA/AFP via Getty Images
سوٹ کیس میں بند زندگی
بنگلہ دیش میں کوکس بازار کا مہاجر کیمپ دنیا کی سب سے بڑی پناہ گاہوں میں سے ایک ہے، جہاں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں وہاں بچوں پر تشدد، منشیات، انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر اور چائلڈ میرج جیسے مسائل کے خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔
تصویر: DANISH SIDDIQUI/REUTERS
حالیہ بحران
ایتھوپیا کے صوبے تیگرائی میں خانہ جنگی نے مہاجرین کے ایک اور بحران کو جنم دے دیا۔ تیگرائی کی 90 فیصد آبادی کا انحصار غیرملکی انسانی امداد پر ہے۔ تقریباﹰ 1.6 ملین افراد سوڈان فرار ہو گئے۔ ان میں سات لاکھ بیس ہزار بچے میں شامل ہیں۔ یہ پناہ گزین عارضی کیمپوں میں پھنسے ہیں اور غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں۔
تصویر: BAZ RATNER/REUTERS
پناہ گزین کہاں جائیں؟
ترکی میں پھنسے شامی اور افغان پناہ گزین اکثر یونان کے جزیروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونانی جزیرے لیسبوس کے موریا مہاجر کیمپ میں کئی پناہ گزین بستے تھے۔ اس کیمپ میں گزشتہ برس ستمبر میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ موریا کیمپ کی یہ مہاجر فیملی اب ایتھنز میں رہتی ہے لیکن ان کو اپنی اگلی منزل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Karahalis
ایک کٹھن زندگی
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ’افغان بستی ریفیوجی کیمپ‘ میں مقیم افغان بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے۔ یہ کیمپ سن 1979 کے دوران افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد سے موجود ہے۔ وہاں رہائش کا بندوبست انتہائی خراب ہیں۔ اس کیمپ میں پینے کے صاف پانی اور مناسب رہائش کی سہولیات کا فقدان ہے۔
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance
بقائے حیات کے لیے امداد
وینزویلا کے بہت سے خاندان اپنے آبائی ملک میں اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے ہمسایہ ملک کولمبیا چلے جاتے ہیں۔ وہاں انہیں غیرسرکاری تنظیم ریڈ کراس کی طرف سے طبی اور غذائی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ریڈکراس نے سرحدی قصبے آرائوکیتا کے ایک اسکول میں ایک عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔
تصویر: Luisa Gonzalez/REUTERS
ایک ادھورا انضمام
جرمنی میں بہت سے پناہ گزین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پرامید ہیں۔ جرمن شہر کارلس روہے کے لرنفروئنڈے ہاؤس میں مہاجرین والدین کے بچے جرمن اسکولوں میں داخلے کے لیے تیار تھے لیکن کووڈ انیس کی وبا کے سبب ان بچوں نے جرمن معاشرے میں ضم ہونے کا اہم ترین موقع کھو دیا۔
تصویر: Uli Deck/dpa/picture alliance
8 تصاویر1 | 8
یورپی عدالت نے رواں برس اپریل میں فیصلہ دیا تھا کہ کسی بھی اعلان کردہ خطرے کے پیش نظر بارڈر کنٹرول کا سلسلہ چھ ماہ سے زیادہ وقت جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ اس فیصلے کے بعد سے یہ دوسرا موقع ہے کہ ان ممالک نے یہ سلسلہ مزید چھ ماہ کے لیے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
ڈی ڈبلیو کی طرف سے 2019ء میں کیے گئے ایک جائزے سے معلوم ہوا تھا کہ یہ بارڈر کنٹرول شینگن معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس پر یورپی یونین کی رکن 22 ریاستوں کے علاو آئس لینڈ، لیشٹن شٹائن، ناروے اور سوئٹزرلینڈ کے لیے عملدرآمد قانونی طور پر لازمی ہے۔
اشتہار
’سیاسی طور پر انتہائی حساس معاملہ‘
عام طور پر یہ یورپی کمیشن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ رکن ریاستوں میں یورپی یونین کے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ اس میں ناکامی پر ماضی میں بھاری جرمانے بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اسپین نے اس قانون پر عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا تھا کہ یورپی یونین کے شہریوں کو مناسب قیمت کے عوض بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ یورپی کمیشن نے 2018ء میں اسے یقینی بنائے کے لیے قانونی سازی مکمل کیے جانے تک اسپین پر روزانہ 50,000 یورو کا جرمانہ عائد کیا تھا۔
تاہم یورپی کمیشن نے بارڈر کنٹرول سے متعلق شینگن معاہدے کی اس خلاف ورزی کے خلاف کسی کارروائی کا آغاز نہیں کیا۔ جرمن شہر گیزن کی جسٹس لیبگ یونیورسٹی کے محقق لیون سوئلنگ کے بقول، ’’یہ معاملہ سیاسی طور پر بہت ہی حساس ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس کو یقینی بنانے کے لیے کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو یہ رکن ریاستیں اور ان کے وزرائے داخلہ شدید خفا ہوں گے۔
ترک یونان سرحد پر نگرانی کا ہائی ٹیک نظام
03:13
یورپی کمیشن کی طرف سے تاہم اس معاملے پر اپنا نکتہ نظر دینے کے لیے ڈی ڈبلیو کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ جنوری 2021ء میں تاہم یورپین پارلیمان میں ایک پیشی کے موقع پر یورپی کمیشن نے کہا تھا کہ خلاف ورزی کی کارروائی شروع کرنے کی نسبت ان قوانین میں ضروری رد وبدل زیادہ بہتر حل ہو گا۔ کمیشن کی طرف سے اس وقت بتایا گیا کہ رکن ریاستوں کی طرف سے ان قواعد پر عمل درآمد روک دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قوانین بذات خود ناکافی ہیں۔