شینگن معاہدے کے بغیر یورپ پر جمود چھا جائے گا، فان ڈئر لاین
30 نومبر 2020
یورپی کمیشن کی خاتون صدر اُرزُولا فان ڈئر لاین کے مطابق عام انسانوں کی آزادانہ نقل و حرکت اور اشیاء کی بلا روک ٹوک نقل و حمل کے ضامن یورپی یونین کے آزاد سرحدی معاہدے شینگن کے بغیر یورپ جمود کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔
اشتہار
فان ڈیر لاین نے پیر تیس نومبر کے روز برسلز میں کہا کہ یورپی یونین کے آزاد سرحدی معاہدے کے نتیجے میں قائم ہونے والے شینگن زون کا ماضی کی نسبت آج زیادہ دل جمعی سے تحفظ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ یورپ جس طرح آگے کی طرف بڑھ رہا ہے، اس عمل کی حفاظت اور تسلسل کے لیے شینگن معاہدے پر مستقبل میں زیادہ سختی سے کاربند رہنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والی اُرزُولا فان ڈئر لاین نے یونین کے رکن ممالک کے وزرائے داخلہ اور یورپی پارلیمان کے نمائندوں کے شینگن فورم نامی اجتماع سے اپنے خطاب میں کہا کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا سے بھی یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اگر شینگن معاہدے پر عمل درآمد رک جائے یا معطل کر دیا جائے، تو یورپ بالکل جمود کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔
'شینگن زون ایک بہت بڑی یورپی کامیابی‘
فان ڈیر لاین نے کہا کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران جب یونین کے رکن کئی ممالک نے اپنی سرحدیں عارضی طور پر بند کر دی تھیں، تو یورپ کا متحرک ہونا اس کے جمود کا شکار ہو جانے میں بدل گیا تھا۔
یورپی کمیشن کی صدر نے شینگن فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’میں اس امر کی شدت سے قائل ہو گئی ہوں، اور یہی بات کورونا وائرس کی عالمی وبا نے بھی ثابت کر دی ہے، کہ یورپی یونین کا شینگن معاہدہ اور اس کے نتیجے میں بننے والا شینگن زون ہماری انتہائی قیمتی کامیابیاں ہیں۔ اس لیے ہم کبھی یہ اجازت نہیں دیں گے کہ یورپی یونین کا اتنا بڑا اور متاثر کن منصوبہ کبھی ناکام ہو جانے کے خطرے کا شکار ہو جائے۔‘‘
شینگن معاہدہ بنیادی طور پر یورپی یونین کا آزاد سرحدی معاہدہ ہے، جس میں یونین کے 28 میں سے 26 رکن ممالک شامل ہیں۔ تاہم اس میں اپنی سہولت کے لیے کئی ایسے یورپی ممالک بھی شامل ہو چکے ہیں جو یورپی یونین کے رکن تو نہیں ہیں لیکن شینگن زون کا حصہ ہیں۔ ان میں سے کئی یورپی ریاستوں نے کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے نقطہ نظر سے اپنی قومی سرحدیں عارضی طور پر بند بھی کر دی تھیں۔
م م / ع ب (ڈی پی اے، اے ایف پی)
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔