1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صادق اور امین ہونا آئینی یا انسانی مسئلہ؟

22 فروری 2022

مادی ترقی کی منازل اس تیزی سے طے ہو ر ہی ہیں کہ اس دور جدید میں ’جو بھی آپ حسب منشاء چاہیں، حاصل‘ کر سکتے ہیں۔ لیکن اس نفسا نفسی کے دور میں ’معاشرتی اقدار یا سچائی‘ ہی ایک ایسی چیز ہے، جو ناپید ہو رہی ہے۔

تصویر: privat

کبھی اس ناپید چیز کے بارے میں بطور معاشرہ ہم نے کوئی توجہ ہی نہیں دی مگر الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے نے مجھے بھی جھنجھوڑا اور مجبور کر دیا کہ سچ جھوٹ کی جنگ تو انسان کی ابتداء سے ہے اور یہ ازل تا ابد جاری رہے گی۔

لیکن آج کل یہ سوال زبان زد عام ہے کہ یہ صادق اور امین کیا ہوتا ہے؟ ارے بھئی یہ کیا پیمانہ ہوا؟ کیا ہوا گر کوئی دوہری شہریت رکھتا ہے تو اب پاکستان کے حالات ایسے تھوڑے ہیں کہ آپ کے پاس وسائل ہوں تو آپ اسی ملک کے ہو کر رہیں؟

 نہ بھئی ہم تو امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ کی شہریت بھی رکھیں گے اور یہ تو فیشن کا حصہ بھی ہے کہ پہچان پاکستانی ہونے کی رکھی جائے، بچے برطانیہ یا امریکا کی شہریت رکھیں، کچھ نہیں تو اقامہ ہی سہی، اب سارے عمل میں رہنا لندن یا امریکا میں ہے اور حکمرانی پاکستان پر کرنی ہے۔

 اقامہ اور شہریت چھپانی ہے، اب ہم کریں بھی تو کیا کریں؟ اور نئے پاکستان میں ایک حد یہ بھی ہو گئی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی کسی کی نہیں سن رہا، فیصلہ تو بڑا بولڈ ہے کہ فیصل واوڈا اب سینیٹر بھی نہیں رہے، تنخواہ اور مراعات بھی واپس کریں۔

مگر دوسری طرف یہ شور بھی بپا ہے کہ عدالت سے فیصل واوڈا کو ریلیف مل جائے گا۔ اور کچھ نہیں تو دو یا تین سال حکم امتناہی ہی چلے گا۔ اور اگر فیصلہ حق میں نہ بھی آیا، تب بھی خواجہ سعد رفیق کی طرح وزیر نہیں تو موصوف مشیر رہ لیں گے کیونکہ عہدہ تو برائے نام ہی ہو گا، اختیار اور طاقت تو ہمشہ سے طاقتور کے تابع ہی رہا ہے اب کونسا کچھ انوکھا ہو جائے گا؟

مگر یہ جو صادق اور امین کی رٹ ہے یہ کیا بلا ہے؟ اب اس پہ نظر ڈالتے ہیں! کیا کوئی بھی انسان یا معاشرہ 'اخلاقی اقدار‘ کی پستی میں رہ کر کبھی بھی ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے؟ کیا دنیا بھر میں، جو سلطان، فرعون یا قارون رہے، ان کا زوال 'سماجی اقدار کی تنزلی‘ نہیں تھا؟ معاشرے میں انہی 'اقدار‘ کے نہ ہونے سے ہی تو بڑے بڑے بادشاہ رل گئے۔

 ن لیگ کے میاں محمد نواز شریف بھی ایک 'جھوٹ یعنی اقامہ چھپانے‘ ہی کی بدولت اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے اور آج ان کی ارسال کردہ میڈیکل رپورٹیں بھی میڈیا کی زینت بنتی ہیں، سچ جھوٹ کی ایک تکرار تو آج بھی ہے۔ دوسری طرف جہانگیر ترین بھی اپنے اثاثے چھپانے کی وجہ سے 'دیانت داروں کی لسٹ‘ سے خارج ہوئے۔

 یہ کہانی یہیں نہیں رکتی بلکہ ماضی میں امریکا کے صدر کلنٹن بھی مواخذے کی نظر ہو چکے ہیں، چھپایا انہوں نے بھی تھا اور نااہلی مواخذے کی بعد مقدر بنی مگر ہمارے ہاں یہ بحث اہل دانش کر رہے ہیں کہ یہ صادق اور امین کس چڑیا کا نام ہے؟

اب یہی دیکھ لیں کہ مثال کے طور پہ سائیبر لاز کے حوالے سے کہ اگر سوشل میڈیا پہ فیک نیوز یا جھوٹ پھیلایا جائے، جھوٹی مہم چلائی جائے تو بھی سزا ہے۔ اب جتنے بھی ایشوز ہیں، جھگڑا تو 'سچ اور جھوٹ‘ کا ہی ہے۔ اور یہی سچ جھوٹ حکومتوں، وزیروں اور مشیروں کو عوام کے کٹہرے میں لا کر ووٹ کی طاقت سے رد بھی کرواتا ہے۔

 کیونکہ ایک وقت تھا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں تو تھیں مگر منشور برائے نام ہی ہوتے تھے، مگر اب تو حکمران جماعت کے نوے دنوں سے لے کر اب تک سوالوں کی زد میں ہے کہ ڈھائی کروڑ نوکریاں کہاں گئیں؟ سوئٹزر لینڈ جیسا پاکستان کہاں ہے؟ یہ ساری بحث آئے روز ٹویٹر پہ ٹاپ ٹرینڈز پہ بھی نظر آتی ہے مگر عوام سچ بولنے، دیانت داری اپنانے کو تیار نہیں۔

 ہر کام میں سفارش چاہتے ہیں، سب کو گاڑی اور بڑا گھر چاہیے، ذریعہ کوئی بھی ہو، جھوٹ سچ بول کر بے ایمانی سے، جیسے بھی ہو مال کما لیں۔ 'اخلاقی اقدار‘ تو اب روٹھ سی گئی ہیں۔ بس جب سوچ ہی یہی ہے تو پھر کہاں سے آنے ہیں صادق اور امین؟

 جس فلاحی ریاست کی طرز پہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نئے پاکستان کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے، ان کے تو اپنے ہی کھلاڑی 'ریاست مدینہ‘ کے اہل نہیں نکلے، پہلے جہانگیر ترین آؤٹ ہوئے تو اب فیصل واوڈا۔ یہ فہرست دیگر جماعتوں کی بھی طویل ہے۔ 62 ایف ون کی زد میں بیوروکریٹس بھی ہیں تو صحافی بھی، اس لائن میں کوئی بھی پیچھے نظر نہیں آتا۔

آئین کی صادق اور امین والی یہ شق اتنی ہی غیر ضروری تھی تو آئین مرتب کرنے والوں نے رکھی ہی کیوں؟ اگر لفظ صادق اور امین سے اب لوگوں کو اتنی چڑ ہے تو امریکی اور کسی بھی مغربی ملک کے آئین سے اس سے ملتا جلتا لفظ ڈھونڈ لیں لیکن اس کا مطلب پھر بھی نہیں بدلنے والا، وہاں بھی سچا ہی اچھا کہلاتا ہے۔

 ہم اسے اپنی عملی زندگیوں میں شامل کرنے سے کیوں انکاری ہیں؟ کیا مادی زندگی کا بوجھ اتنا ہے کہ ہم 62 ایف ون کے بوجھ تلے روئے زمین پہ بسننے کے اہل نہیں رہے ہیں؟ اگر زمین ہمارا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تو پھر ہم کس گمان میں جھوٹ کا بوجھ لیے صحیح حق داروں کی آکسیجن چرائے جا رہے ہیں؟

 سوچیں اور غور کریں اور آئین پر عمل درآمد کہیں دو ہی صورتوں میں ممکن تو نہیں ہے کہ یا قوم کو بدلیں یا حاکم درآمد کر لیتے ہیں۔ دوسری آپشن تو ہمارے بزرگ دیکھ چکے اور آج بھی ہمارے بزرگ انگریز کے دور کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔ اب آئین تبدیل کرنا ہے یا حکمران فیصلہ آپ کریں! کیونکہ صادق اور امین محض آئینی نہیں بلکہ انسانی مسئلہ ہے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں