صاف پانی اور حفظان صحت سے متعلق بڑی کامیابیاں ملیں، اقوام متحدہ
9 مئی 2014ماہرین کے مطابق صاف پانی کی فراہمی، کچرے اور گندے پانی کی نکاسی کا بہتر انتظام ہیضہ، اسہال، پیچش، ہیپاٹائٹس اے اور ٹائیفائڈ جیسی بیماریوں کے خلاف جنگ کی بنیاد ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے پانی اور حفظان صحت کے شعبے کے کوآرڈینیٹر بروس گورڈن کا کہنا تھا، ’’کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنا واقعی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ بہت سے امراض کی بنیادی وجہ ہے۔‘‘
گورڈن کا کہنا تھا کہ اسہال یا دستوں کا تعلق پینے کے گندے پانی سے ہے، سالانہ تقریباﹰ آٹھ لاکھ 42 ہزار افراد حفظان صحت کی نامناسب اور ناقص صفائی کی سہولیات کے سبب پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہو تے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) اور یونیسیف کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سن 2012ء کے آواخر تک دنیا کی 89 فیصد آبادی کو بہتر پانی کی فراہمی تک رسائی حاصل تھی۔ بیس برس پہلے کی نسبت یہ شرح 13 فیصد زیادہ بنتی ہے۔ دوسری جانب اس ترقی کے باوجود دنیا کے 748 ملین افراد پینے کے صاف پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔ ان افراد کی تقریباﹰ پچاس فیصد تعداد سب صحارا افریقہ میں رہتی ہے جبکہ دیگر افراد کا تعلق براعظم ایشیا سے ہے۔ ان میں سے بیشتر دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ بیس برسوں میں صاف یا بہتر بیت الخلاء کی سہولتوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سن 1990ء کے بعد سے صاف بیت الخلاء کی سہولتوں میں پندرہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کھلی جگہوں پر رفع حاجت
رپورٹ کے مطابق دنیا کے تقریباﹰ ایک ارب افراد کو آج بھی ٹوائلٹس جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں ہے اور وہ کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرتے ہیں۔ ان میں سے تقریباﹰ 600 ملین افراد کا تعلق بھارت سے ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنے جیسے مسئلے کا تعلق حفظان صحت ہی سے نہیں بلکہ اسے ثقافتی طور پر تسلیم کرنے سے بھی ہے۔ ڈبلیو ایچ او میں پبلک ہیلتھ کے شعبے کی سربراہ ماریا نائیرا کہتی ہیں، ’’یہ مقامی آبادی کی طرف سے مطالبے کا بھی معاملہ ہے۔ وہ سب پانی کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن صفائی کا مطالبہ نہیں کرتے۔ لیکن سب سے چونکا دینے والی تصویر یہ ہے کہ لوگ رفع حاجت کھلی جگہوں پر کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ان کے پاس موبائل فون بھی ہوتے ہیں۔‘‘
صاف پانی اور حفظان صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی میں بہتری اقوام متحدہ کے ہزاریہ ترقیاتی اہداف میں شامل ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے سن 2015ء تک کا وقت مقرر کیا گیا تھا۔ یونیسیف کے ماہر رالف لوینڈک کہتے ہیں، ’’اقوام متحدہ کے ہزاریہ ترقیاتی اہداف میں غربت کا خاتمہ بھی شامل تھا، جس میں صرف پچاس فیصد کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن حفظان صحت کے معاملے میں پچاس فیصد سے بھی کم کامیابی ملی ہے۔‘‘