عالمی ادارہ برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ ایک سات سالہ بچی سمیت مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والے چوبیس تارکین وطن صحرائے صحارا میں بھٹکتے ہوئے ملے ہیں۔ ان مہاجرین کو اُن کا ڈرائیور صحرا میں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
اشتہار
عالمی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ مہاجرین نائجر کے شہر اگادیز سے تین سو کلو میٹر کے فاصلے پر ملے۔ اگادیز کا شہر صحرائے صحارا کے کنارے پر واقع ہے اور یورپ جانے کے خواہشمند تارکین وطن کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔
سینیگال اور گیمبیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کے اس گروپ نے بتایا کہ انہیں اُن کا ڈرائیور صحرا میں چھوڑ کر فرار ہو گیا تھا۔ ان تارکین وطن کے مطابق وہ چھ روز تک ڈرائیور کا انتظار کرتے رہے اور پھر انہوں نے مایوس ہو کر دو دن صحرا میں پیدل سفر بھی کیا۔
عالمی ادارہ مہاجرت کے اہلکار کے مطابق مہاجرین کے اس گروہ کو مقامی حکام نے ایک کنویں کے قریب دیکھا اور ادارے کو مطلع کیا۔
تارکین وطن کو بچانے کے لیے امدادی کارروائیاں اور خوفناک حادثات صحارا میں روز مرہ کا معمول ہیں۔ اگادیز کے حکام کی جانب سے جاری کی گئی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں مغربی افریقی تارکین وطن یا تو صحرا میں مردہ پائے گئے یا لاپتہ ہو گئے۔ جبکہ متعدد افراد کو امدادی کارروائیوں میں بچایا بھی گیا۔
آئی او ایم کا کہنا ہے کہ صرف مئی اور جون میں ہی صحرائے صحارا سے باون تارکین وطن کی لاشیں ملی تھیں، جن میں کمسن بچے بھی شامل تھے جبکہ دیگر پچاس مہاجرین اب بھی لاپتہ ہیں اور آئی ایم او کے خیال میں شاید وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے یورپی یونین نے نائجیریا کو دس ملین یورو کی رقم بطور امداد دی تھی تاکہ تارکین وطن کے بہاؤ کو لیبیا اور پھر وہاں سے یورپ پہنچنے سے روکا جا سکے۔
'موت کے راستے‘ پر زندگی داؤ پر لگاتے افغان مہاجر لڑکے
بیشتر تارکینِ وطن کو اٹلی سے فرانس کے درمیان بارڈر کراس کرنے کے لیے جس راستے پر سفر کرنا پڑتا ہے اسے ’ڈیتھ پاس‘ یا موت کا راستہ کہتے ہیں۔ یہ راستہ بے حد پُر خطر ہے۔ اس سفر کا اختتام بعض اوقات موت پر ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
جنگل میں
پولیس کے تعاقب سے خوفزدہ کم سن افغان لڑکوں کا ایک گروپ بارہ کلو میٹر لمبے ٹریک پر روانہ ہے۔ یہ راستہ ’ڈیتھ پاس ‘ کہلاتا ہے جو اونچی نیچی ڈھلانوں اور خطرناک پہاڑوں پر مشتمل ہے اور فرانس کے سرحدی قصبے ’مونتوں‘ تک جاتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
ایک دھوکے باز راستہ
وہ تارکین وطن جو اٹلی سے فرانس جانے کے لیے اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں اُنہیں سفر کے دوران پتہ چلتا ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے ہر پل موت کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ دلدلی زمین، خطرناک موڑ اور پہاڑوں کا سفر بعض اوقات مہلک ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
زیرِزمین ٹنل
بہت سے مہاجرین فرانس جانے کے لیے جنگلات سے گزر کر ہائی وے تک جاتے ہیں جو اُنہیں اس باڑ تک لے آتی ہے۔ یہاں سے وہ ایک زیرِ زمین ٹنل سے پیدل گزرتے ہیں جو خود کو موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
فطرت پر انحصار
وہ تارکین وطن جو فرانس جانے کے لیے ’ڈیتھ پاس‘ کا انتخاب کرتے ہیں، عموماﹰ وہ یہ اقدام راستے کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر اور کھانے پینے کا سامان ہمراہ لیے بغیر ہی اٹھا لیتے ہیں۔
تصویر: DW/F.Scoppa
بوڑھے کسانوں کے اسٹور ہاؤس
مہاجرین اور تارکین وطن کبھی کبھار بوڑھے کسانوں کے خالی اسٹور ہاؤسز کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہاں اُنہیں پرانے کپڑے بھی مل جاتے ہیں۔ اپنے نسبتاﹰ صاف اور نئے کپڑوں کے مقابلے میں یہ پرانے کپڑے تبدیل کر کے تارکینِ وطن سمجھتے ہیں کہ اس طرح اُنہیں فرانس کی پولیس سے چھپنے میں مدد ملے گی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر نصب ایک پرچم سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ کس مقام سے سرحد کے دوسری طرف جا سکتے ہیں۔ یہ باڑ فرانس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اٹلی کی جانب سے امیگریشن روکنے کے لیے تعمیر کی تھی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اب کیا کریں؟
افغان مہاجر لڑکے اندازہ لگا رہے ہیں کہ وہ فرانس کے قصبے مونتوں تک جانے کے لیے نیچے ڈھلانی راستے سے کس طرح اتریں۔ اس مقام پر اکثر تارکینِ وطن کو بارڈر پولیس پکڑ لیتی ہے اور اُنہیں واپس اٹلی بھیج دیا جاتا ہے۔