1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صحافيوں کے ليے بد ترين سال 2012

19 دسمبر 2012

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظيم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈز ‘ کی سالانہ رپورٹ ميں اس ختم ہونے والے سال کو صحافيوں کے ليے بد ترين سال کہا گيا ہے۔ خاص طور پر شام ميں بہت بڑی تعداد ميں انہيں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ہيں۔

تصویر: Fotolia/Comugnero Silvana

صحافيوں کی تنظيم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی اُلريکے گروسکا نے کہا کہ 2012ء ايک غير معمولی سال تھا۔ اس سال دنيا بھر ميں 141 صحافی مارے گئے۔ بلاگرز اور ملٹی ميڈيا کارکنوں کو اُن کی پيشہ ورانہ مصروفيات کی بنياد پر نشانہ بنايا گيا۔ صحافيوں کی اس تنظيم کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس سال ملٹی ميڈيا کے چھ کارکنوں اور 47 بلاگرز کو ہلاک کرديا گيا۔ رپورٹ ميں اُنہيں ’شہری صحافی‘ بھی کہا گيا ہے۔ اس کے علاوہ 88 صحافيوں کو اپنی پيشہ ورانہ مصروفيات کی انجام دہی کے دوران جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی طرف سے 1995ء ميں ایسی پہلی سالانہ رپورٹ مرتب کيے جانے کے بعد سے کسی بھی سال اتنی بڑی تعداد ميں صحافی ہلاک نہيں ہوئے تھے۔

اس مہینے کے شروع ميں روزنامہ الفجر کے 33 سالہ صحافی الحسينی ابو ديف ڈوئچے ويلے اکيڈمی ميں ٹريننگ کے بعد قاہرہ ميں صدارتی محل کے سامنے صدر مرسی کے مخالفين اور حاميوں کے درميان تصادم کی تصاوير لے رہے تھے۔ ايک عينی شاہد کے مطابق الحسينی کو ايک نامعلوم شخص نے بالکل قريب سے گوليوں کا نشانہ بنايا اور اس کے چھ دن بعد وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔

ابو ديف الحسينیتصویر: DW Akademie/ Nasir Al-Jezairi

2012ء شہری صحافيوں، بلاگرز اور انٹرنيٹ پر خبريں شائع کرنے والوں کے ليے خاص طور پر خطرناک تھا۔ صرف شام ميں ايسے 44 افراد کو ہلاک کر ديا گيا۔ صحافیوں کی اس تنظيم کی ترجمان گروسکا نے کہا: ’’شام ميں بہت سے لوگوں نے اطلاعات کی فراہمی پر حکومتی پابنديوں کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے بلاگز، ويڈيوز اور موبائل فونز کے ذريعے اطلاعات باہر بھيجیں۔ شام ميں حکومت کی سختی کے باعث پيشہ ور صحافی مشکل ہی سے موقع پر موجود رہ سکتے ہيں۔ اس ليے ہميں جرمنی ميں شام کے حالات پر رپورٹنگ کے ليے ان بلاگز، ویڈيوز اور موبائل فونز کے ذریعے اطلاعات پر پورا انحصار کرنا پڑتا ہے۔‘‘

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے شام کو ’صحافيوں کے قبرستان‘ کا افسوسناک نام ديا ہے۔ وہاں صحافی باغيوں اور سرکاری فوج دونوں کے درميان پس رہے ہيں۔

اس تنظيم نے اپنی سالانہ رپورٹ ميں لکھا ہے کہ پاکستان کئی برسوں سے صحافيوں کے ليے خطرناک ترين ممالک ميں شامل ہے۔ اس سال وہاں 10 صحافيوں اور ايک ميڈيا کارکن کو قتل کر ديا گيا۔ صوماليہ ميں اس سال 18 صحافيوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ميکسيکو ميں منشيات کے کاروبار جيسے منظم جرائم اور سرکاری افسران اور حکام اور جرائم پيشہ گروہوں کے سرغنوں کے آپس کے رابطوں پر اطلاعات شائع کرنے والے صحافی خاص طور پر نشانہ بنائے جاتے ہيں۔

2012ء ميں ایک ہزار سے بھی زيادہ صحافيوں اور بلاگرز کو گرفتار کر ليا گيا اور دو ہزار صحافيوں پر حملے کيے گئے يا انہیں دھمکياں دی گئيں۔

H.Heinze,sas/A.Noll,ij

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں