صحافیوں کو درپیش خطرات، اقوام متحدہ کا پاکستان سے احتجاج
20 اگست 2011آفس آف دی ہائی کمشنر فار ہیومن رائٹس(OHCHR) کے ایک ترجمان روپرٹ کولےوِل کا کہنا تھا، ’’ ہمیں موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق 14 اگست کو بلوچستان میں ایک صحافی منیر شاکر کو ہلاک کر دیا گیا، اسی طرح اس واقعے سے تین روز قبل 11 اگست کو شمالی وزیرستان میں ایک صحافی رحمت اللہ درپا خیل کو اغوا کر لیا گیا تھا۔‘‘
روپرٹ کولے ول کا حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم تمام ذمہ داران سے فوری طور پر اپیل کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کو مکمل طور پر روکا جائے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات کروائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مختلف تنظیموں کی طرف سے پاکستان کو صحافیوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا جا رہا ہے۔
تنظیم ’’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘‘ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سن 2010 کے دوران 16 صحافیوں کو قتل کر دیا گیا تھا اور 2011ء میں ابھی تک نو صحافی مارے جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف آٹھ دنوں میں دو صحافیوں کے ساتھ پیش آنے والے یہ واقعات پاکستان میں صحافیوں کو درپیش انتہائی کشیدہ صورتحال کو واضح کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ’’ہم نے رواں برس بھی ایسے واقعات پر احتجاج کیا تھا اور اب دوبارہ کر رہے ہیں۔ تب سے لے کر اب تک صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ حالات مزید ابتر ہو گئے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ابھی تک ایسے کسی ایک واقعے کی بھی غیر جانبدار اور مکمل تحقیقات نہیں کرائی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ دو ماہ قبل پاکستان کے نامور صحافی سلیم شہزاد کو بھی ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ہانگ کانگ کے ایک جریدے ایشیا ٹائمز آن لائن کے لیے کام کرنے والے پاکستانی صحافی سلیم شہزاد 29 مئی کو اسلام آباد سے اچانک غائب ہو گئے تھے اور دو روز بعد ان کی لاش ایک نہر سے ملی تھی۔ پولیس کے مطابق مقتول کی جسم پر تشدد کے نشانات بھی موجود تھے۔ امریکہ کی طرف سے سلیم صحافی کے قتل کی ذمہ داری پاکستانی خفیہ ایجنسی پر عائد کی گئی تھی۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عاطف توقیر