صحافیوں کی ریکارڈ تعداد جیلوں میں بند کی گئی، سی پی جے
9 دسمبر 2021
صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم سی پی جے کی تازہ رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار اکیس میں مقید صحافیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا بھر میں 293 صحافیوں کو جیلوں میں بند کیا گیا جبکہ 24 صحافی ہلاک کیے گئے۔
اشتہار
صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم سی پی جے کی تازہ رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار اکیس میں مقید صحافیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا بھر میں 293 صحافیوں کو جیلوں میں بند کیا گیا جبکہ 24 صحافی ہلاک کیے گئے۔
نیویارک میں قائم ’'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘‘ (سی پی جے) نے جمعرات کو کہا ہے کہ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے جیلوں میں بند کیے جانے والے صحافیوں کی تعداد میں سن 2021 کے دوران ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں اسی سال کم از کم چوبیس صحافی اپنے کام کی وجہ سے ہلاک کیے گئے۔
آزادی صحافت کی درجہ بندی: چھ پس ماندہ ترین ممالک
آئے دن صحافی اور بلاگرز پر حملے ہوتے ہیں اور انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اس بار اس دن کے حوالے سے میڈیا کی آزادی کے دشمن سمجھے جانے والے دنیا کے چھ بدترین ممالک کی صورتحال پر روشنی ڈالی ہے۔
تصویر: Fotolia/picsfive
شام میں آزادی صحافت کو درپیش مسائل
صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت سے اب تک متعدد صحافی اور بلاگرز یا تو مار دیے گئے ہیں یا تعاقب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کئی سالوں سے شام کو پریس کی آزادی کا دشمن ملک کہتی آئی ہے۔ شام میں حکومت ہی نہیں بلکہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو اور النصرہ فرنٹ، جو اسد کے خلاف لڑ رہے ہیں، بھی شامی حکومتی میڈیا کے صحافیوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
تصویر: Abd Doumany/AFP/Getty Images
چین میں پریس کی آزادی کا فقدان
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق چین صحافیوں اور بلاگرز کے لیے سب سے بڑی جیل کے مانند ہے۔ آمرانہ حکومت رائے کی آزادی کی سخت دشمن ہے۔ وہاں غیر ملکی صحافیوں پر دباؤ بھی روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ملک کے کچھ حصے ان کے لیے بند ہیں۔ صحافیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور انٹرویو دینے والوں اور معاونین کو اکثر و بیشتر حراست میں لے لیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
ویت نام، حکومت کے ناقدین کے خلاف جنگ
ویت نام میں آزاد میڈیا کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ واحد حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی صحافیوں کو بتاتی ہے کہ انہیں کیا شائع کرنا چاہیے۔ ناشر، مدیر اور صحافیوں کا پارٹی ممبر ہونا لازمی ہے۔ بلا گرز حکام کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی اجارہ داری کے خلاف لکھنے والے بلاگرز کو سنگین نتائج کا سامنا ہوتا ہے۔
تصویر: picture alliance/ZB/A. Burgi
ترکمانستان، خطرناک صورتحال
ترکمانستان کے صدر سرکاری میڈیا پر قابض ہیں۔ استثنا محض اخبار’ریسگال‘ کو حاصل ہے، تب بھی اس کا ہر ایڈیشن صدر کے حکم سے شائع ہوتا ہے۔ اس ملک میں میڈیا پر اجارہ داری کے خلاف ایک نیا قانون بھی جاری ہو گیا ہے، جس کے بعد سے ترکمانستان کے عوام کی غیر ملکی خبر ایجنسیوں تک رسائی ممکن ہو گئی ہے۔ انٹرنیٹ حکومت کے کنٹرول میں ہے اور زیادہ تر ویب سائٹس بلاک کر دی گئی ہیں۔
تصویر: Stringer/AFP/Getty Images
شمالی کوریا، آمر حاکم کی حکمرانی میں
’پریس کی صحافت‘ کی اصطلاح سے شمالی کوریا کا کوئی واستہ نہیں۔ اس ریاست میں آزاد رپورٹننگ صحافیوں کے لیے ناممکن ہے۔ ساری دنیا سے کٹے ہوئے آمر حکمران کم یونگ اُن اپنے میڈیا پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ یہاں محض حکومتی نشریاتی ادارہ ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز چلا رہا ہے، جس نے اپنی آزاد رائے کا اظہار کیا وہ اپنی فیملی سمیت سنگین مشکلات سے دو چار ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Yonhap/Kcna
اریتریا، افریقہ کا شمالی کوریا
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے افرقیہ کے آمر حکمرانی والے ملک اریتریا کو اپنی اس فہرست میں سب سے آخری نمبر پر رکھا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق دنیا کے کسی دوسرے ملک میں صحافت کے ساتھ اتنا بُرا سلوک نہیں ہو رہا ہے، جتنا اس افریقی ریاست میں۔ بمشکل ہی اس بارے میں مقامی میڈیا کی کوئی رپورٹ سامنے آتی ہے۔ بہت سے صحافیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Juinen
6 تصاویر1 | 6
مقید یا مقتول صحافیوں کے بارے میں سی پی جے کی سالانہ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر، رواں سال 293 صحافیوں کو جیلوں میں بند کیا گیا۔ ان دو سو تریانوے صحافیوں میں سے سب سے زیادہ یعنی ایک چوتھائی صحافیوں کو چین اور میانمار میں گرفتار کیا گیا۔
'آمرانہ حکومت کی پہچان‘
گزشتہ برس کے مقابلے میں متاثرہ صحافیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ سن 2020 میں 280 صحافیوں کو جیل میں بند کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق مقید صحافیوں کی تعداد سے پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر میں آزادانہ رپورٹنگ کے حوالے سے عدم برداشت پیدا ہو رہا ہے۔
سی پی جے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جوئل سائمن کے بقول، ''خبروں کی رپورٹنگ کرنے پر صحافیوں کو قید کرنا ایک آمرانہ حکومت کی پہچان ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''یہ خاص طور پر خوف ناک بات ہے کہ میانمار اور ایتھوپیا نے آزادی صحافت پر اس قدر بے دردی سے دروازے بند کر دیے ہیں۔‘‘
اشتہار
چین: صحافیوں کو جیل بھیجنے میں سرفہرست
سی پی جے کی رپورٹ میں صحافیوں کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے چین کو بدترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق چین میں 50، میانمار میں 26، مصر میں 25، ویتنام میں 23 اور بیلاروس میں 19 صحافی اس وقت بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اسی طرح متعدد صحافی سعودی عرب، ایران، ترکی، روس، ایتھوپیا اور اریٹیریا میں بھی قید ہیں۔
’صحافت کی آزادی‘ کے شکار صحافی
صحافیوں کو ان کی ذمہ داریوں کے دوران گرفتارکیا جاتا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی مرتبہ قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ یہ صحافی اکثر حکومتوں، جرائم پیشہ گروہوں یا مذہبی انتہاپسندوں کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed
روس: نکولائی آندرشتشینکو
نکولائی آندرشتشینکو کو روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں سرعام ایک سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انیس اپریل 2017ء کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ آندرشتشینکو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے خلاف لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ صدر ولادیمیر پوٹن جرائم پیشہ گروہوں اور کے جی بی کے جانشین روسی خفیہ ادارے کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اقتدار میں آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Usov
میکسیکو: میروسلاوا بریچ
میروسلاوا بریچ کو تئیس مارچ 2017ء کو ان کے گھر کے سامنے سر میں آٹھ گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ میکسیکو کی یہ صحافی منشیات فروش گروہوں کے راز فاش کیا کرتی تھی۔ وہ مارچ میں میکسیکو میں قتل ہونے والی تیسری صحافی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. Tischler
عراق: شیفا گہ ردی
شیفا گہ ردی پچیس فرروی 2017ء کو شمالی عراق میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ ایران میں پیدا ہونے والی شیفا اربیل میں قائم کرد خبر رساں ادارے ’روودوا‘ کے لیے کام کرتی تھیں۔ انہیں عراق میں ملکی دستوں اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مابین جاری جنگ کے بارے میں رپورٹنگ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AA/F. Ferec
بنگلہ دیش: اویجیت رائے
امریکی شہریت کے حامل اویجیت رائے اپنے بلاگ ’مکتو مونا‘ یعنی’کھلا ذہن‘ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ وہ خاص طور پر سائنسی حقائق اور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں لکھتے تھے۔ وہ فروری 2015ء میں ایک کتاب میلے میں شرکت کے لیے ڈھاکہ آئے تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں نے تیز دھار چاپٹروں سے ان پر حملہ کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. U. Zaman
پاکستان: زینت شہزادی
24 سالہ پاکستانی صحافی زینت شہزادی کو انیس اگست 2015ء کو مسلح افراد نے اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ ایک رکشے میں سوار ہو کر اپنے دفتر جا رہی تھیں۔ وہ لاپتہ ہونے والے ایک شخص کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ زینت پاکستانی افواج کی طرف سے تعاقب کا شکار بنیں۔
تصویر: humanrights.asia
ازبکستان: سالیجون عبدالرحمانوف
عبدالرحمانوف 2008 ء سے منشیات رکھنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق حکومتی اہلکاروں نے عبدالرحمانوف کو خاموش کرانے کے لیے ان پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا۔
ترکی : ڈینیز یوچیل
ترک نژاد جرمن صحافی ڈینز یوچیل فروری 2017ء سے ترکی میں زیر حراست ہیں۔ جرمن جریدے دی ویلٹ کے اس صحافی پر دہشت گردی کا پرچار کرنے اور عوام میں نفرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ انقرہ حکومت ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.Merey
چین: گاؤ یُو
گاؤ یُو ماضی میں ڈوئچے ویلے کے لیے کام کر چکی ہیں۔ وہ 2014ء سے سرکاری راز افشا کرنے کے جرم میں قید میں ہیں۔ انہیں سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ بین الاقوامی دباؤ کے بعد گاؤ کو جیل سے رہا کر کے ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔
تصویر: DW
آذربائیجان: مہمان حسینوف
حسینوف ایک آن لائن سماجی اور سیاسی میگزین کے مدیر ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے ملک کے اس سب سے معروف ویڈیو بلاگر کو بہتان تراشی کے الزام میں مارچ 2017ء میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی
تصویر: twitter.com/mehman_huseynov
مقدونیا: ٹیموسلاف کیزاروفسکی
ٹیموسلاف کیزاروفسکی کو جنوب مشرقی یورپ کا واحد سیاسی قیدی کہا جاتا ہے۔ کیزاروفسکی ایک صحافی کے قتل کے واقعے میں اصل حقائق تک پہنچنے کی کوششوں میں تھے اور اس دوران انہوں نے پولیس کی خفیہ دستاویزات کا بھی حوالہ دیا تھا۔ اکتوبر 2013ء کی ایک متنازعہ عدالتی کارروائی کے اختتام پر انہیں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی، جسے بعد میں دو سالہ نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا۔
تصویر: DW/K. Blazevska
10 تصاویر1 | 10
سی پی جے کو پہلی مرتبہ ہانگ کانگ میں قید صحافیوں کو بھی اس فہرست میں شامل کرنا پڑا، جن میں خاص طور پر بند ہونے والے 'ایپل ڈیلی اخبار‘ کے بانی جمی لائی شامل ہیں۔
روایتی طور پر صحافیوں پر ریاست مخالف جرائم کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن اس مرتبہ سی پی جی 'سائبر کرائم‘ کے الزامات میں نمایاں اضافہ دیکھ رہا ہے، جس میں عموماﹰ آن لائن شائع اور پھیلائے جانے والے مواد شامل ہوتے ہیں۔
بھارت اور میکسیکو: صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک
صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں سن 2021 کے دوران بھارت اور میکسیکو کو صحافیوں کے لیے سب سے مہلک ترین ممالک قرار دیا ہے۔ رواں برس بھارت میں چار صحافیوں کو قتل کیا گیا، جبکہ میکسیکو میں تین صحافی قتل کیے گئے۔ میکسیکو میں مزید چھ صحافیوں کی موت کی تحقیقات جاری ہیں۔ اس کے علاوہ، 18 صحافیوں کی موت غیر یقینی حالات میں ہوئی، جس سے ابہام پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان کی موت میں ان کی صحافت کا کوئی کردار تھا یا نہیں۔
ع آ / ا ا (روئٹرز، اے ایف پی)
صحافت: ایک خطرناک پیشہ
رواں برس کے دوران 73 صحافی اور میڈیا کارکنان قتل کیے گئے۔ یہ تمام جنگی اور تنازعات کے شکار علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران ہی ہلاک نہیں کیے گئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے صحافی برادری کو مختلف قسم کی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
وکٹوریہ مارینوا، بلغاریہ
تیس سالہ خاتون ٹی وی پریزینٹر وکٹوریہ مارینوا کو اکتوبر میں بلغاریہ کے شمالی شہر روسے میں بہیمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے یورپی یونین کے فنڈز میں مبینہ بدعنوانی کے ایک اسکینڈل پر تحقیقاتی صحافیوں کے ساتھ ایک پروگرام کیا تھا۔
تصویر: BGNES
جمال خاشقجی، سعودی عرب
ساٹھ سالہ سعودی صحافی جمال خاشقجی ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے لیکن باہر نہ نکلے۔ سعودی حکومت کے سخت ناقد خاشقجی اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔ وہ اپنی طلاق کے کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں قونصلیٹ گئے تھے جبکہ ان کی منگیتر باہر گیارہ گھنٹے انتظار کرتی رہیں لیکن خاشقجی باہر نہ آئے۔ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک خاشقجی نے کہا تھا کہ ریاض حکومت انہیں قتل کرانا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters/Middle East Monitor
یان کوسیاک اور مارٹینا کسنیروا، سلوواکیہ
تحقیقاتی صحافی یان کوسیاک اور ان کی پارٹنر مارٹینا کسنیروا کو فروری میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کا الزام ایک سابق پولیس اہلکار پر عائد کیا گیا۔ اس واردات پر سلوواکیہ بھر میں مظاہرے شروع ہوئے، جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونا پڑ گیا۔ کوسیاک حکومتی اہلکاروں اور اطالوی مافیا کے مابین مبینہ روابط پر تحقیقات کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Voijnovic
دافنہ کورانا گالیزیا، مالٹا
دافنہ کورانا گالیزیا تحقیقاتی جرنلسٹ تھیں، جنہوں نے وزیر اعظم جوزف مسکوت کے پانامہ پیپرز کے حوالے سے روابط پر تحقیقاتی صحافت کی تھی۔ وہ اکتوبر سن دو ہزار سترہ میں ایک بم دھماکے میں ماری گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L.Klimkeit
وا لون اور چُو سو او، میانمار
وا لون اور چُو سو او نے دس مسلم روہنگیا افراد کو ہلاکت کو رپورٹ کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں دسمبر سن دو ہزار سترہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انتالیس عدالتی کارروائیوں اور دو سو پیسنٹھ دنوں کی حراست کے بعد ستمبر میں سات سات سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سن انیس سو تئیس کے ملکی سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Wang
ماریو گومیز، میکسیکو
افغانستان اور شام کے بعد صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک میکسیکو ہے۔ اس ملک میں سن دو ہزار سترہ کے دوران چودہ صحافی ہلاک کیے گئے جبکہ سن دو ہزار اٹھارہ میں دس صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 35 سالہ ماریو گومیز کو ستمبر میں ان کے گھر پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حکومتی اہلکاروں میں بدعنوانی کی تحقیقات پر انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
سمین فرامارز اور رمیز احمدی، افغانستان
ٹی وی نیوز رپورٹر سیمین فرامارز اور ان کے کیمرہ مین رمیز احمد ستمبر میں رپورٹنگ کے دوران کابل میں ہوئے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ افغانستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو، برازیل
برازیل میں بدعنوانی کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ ریڈیو سے وابستہ تحقیقتاتی صحافی مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو حکومتی اہلکاروں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے تھے۔ انہیں اگست میں چار مسلح حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Sa
شجاعت بخاری، کشمیر
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں فعال معروف مقامی صحافی شجاعت بخاری کو جون میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بخاری کو دن دیہاڑے سری نگر میں واقع ان کے دفتر کے باہر ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے بھی منسلک رہ چکے تھے۔
تصویر: twitter.com/bukharishujaat
دی کپیٹل، میری لینڈ، امریکا
ایک مسلح شخص نے دی کپیٹل کے دفتر کے باہر شیشے کے دروازے سے فائرنگ کر کے اس ادارے سے وابستہ ایڈیٹر وینڈی ونٹرز ان کے نائب رابرٹ ہائیسن، رائٹر گیرالڈ فشمان، رپورٹر جان مک مارا اور سیلز اسسٹنٹ ریبیکا سمتھ کو ہلاک کر دیا تھا۔ حملہ آور نے اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا تھا، جو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔