صحافیوں کی گرفتاریوں کے خلاف ترکی میں مظاہرے
5 مارچ 2011فریڈم فار جرنلسٹس پلیٹ فارم کا کہنا ہے کہ حالیہ کچھ مہینوں میں ترکی میں میڈیا پر حکومتی دباؤ بڑھا ہے۔ ان مظاہروں کا اہتمام ترکی کے 85 میڈیا گروپوں کی اس نمائندہ تنظیم نے ہی کیا۔
انقرہ اور استنبول میں مظاہروں کے دوران شرکاء نے کہا کہ صحافیوں کی گرفتاریوں، انہیں قید میں رکھنے اور عدالتوں میں پیش کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، جو قابل تشویش ہے۔
انہوں نے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا، جس میں کہا گیا، ’صحافیوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، انہیں خوف میں مبتلا کیا جا رہا ہے اور ہم منتظر ہیں کہ ایسی فضا کے خاتمے کے لیے جمہوری اقدامات کیے جائیں۔ پینل کوڈ میں بھی تبدیلیاں کی جانی چاہئیں۔‘
خیال رہے کہ ترکی میں جمعرات کو پولیس نے آٹھ صحافیوں کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارے تھے۔ انہیں مبینہ طور پر حکومت گرانے کی منصوبہ بندی میں ملوث تنظیم Ergenekon سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ دو ہفتے قبل بھی اپوزیشن کی ویب سائٹ Oda TV سے وابستہ تین صحافیوں کو اسی تنظیم سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ ویب سائٹ کھلے عام وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) پر تنقید کرتی ہے جبکہ جمعرات کو گرفتار کیے گئے صحافیوں میں سے بعض نازک سیاسی موضوعات پر کتابیں لکھ چکے ہیں۔
استنبول کے ایک مظاہرے میں شریک روزنامہ Radikal کے ایڈیٹوریل کوآرڈینیٹر Erdal Guven نے جرمن خبررساں ادارے ڈی پی اے سے بات چیت میں کہا، ’گرفتار کیے گئے تمام صحافیوں میں کوئی نہ کوئی بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے حال ہی میں جو کتابیں لکھیں یا خبریں جاری کیں، ان سے اے کے پی کو پریشانی اٹھانی پڑی ہے۔ یہ گرفتاریاں ہم سب پر حملے کے مترادف ہیں اور ہم یہاں آج اسی لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔‘
ترکی میں صحافیوں کی گرفتاریوں پر عالمی سطح پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے بھی اس پر تشویش ظاہر کی ہے۔ فریڈم فار جرنلسٹس پلیٹ فارم کے مطابق ترکی میں اس وقت 60 سے زائد صحافی قید ہیں جبکہ میڈیا اداروں سے منسلک تقریباﹰ دو ہزار افراد کو مقدمات کا سامنا ہے۔ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے 2010ء کے لیے اپنے پریس فریڈم انڈیکس پر 178 ممالک میں ترکی کو 138ویں نمبر پر رکھا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: عاطف توقیر