1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافتپاکستان

صحافی عمران ریاض کی چار ماہ کی گمشدگی کے بعد گھر واپسی

25 ستمبر 2023

پاکستان کے سینیئر صحافی عمران ریاض خان چار ماہ سے زائد عرصے تک لاپتہ رہنے کے بعد پیر کی صبح گھر واپس پہنچ گئے۔ لاہور ہائی کورٹ نے ان کی بازیابی کے لیے پولیس کو 26 ستمبر تک کا 'آخری موقع' دیا تھا۔

صحافی عمران ریاض
گرفتاری کے بعد عمران ریاض کو آخری بار تھانہ کینٹ اور بعد ازاں سیالکوٹ جیل لے جایا گیا تھا۔ پھر اس کے بعد 15 مئی کو ایک لاء افسر نے لاہور ہائی کورٹ کو یہ بتایا تھا کہ صحافی عمران ریاض کو تحریری حلف نامے کے بعد جیل سے رہا کر دیا گیاتصویر: privat

پاکستان کے صوبے پنجاب کی پولیس کا کہنا ہے کہ معروف صحافی اور ٹی وی اینکر عمران ریاض خان محفوظ طریقے سے اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔

عمران ریاض کی گمشدگی میں ملٹری انٹیلیجنس ملوث ہے، آر ایس ایف

 عمران ریاض گزشتہ چار ماہ سے بھی زائد عرصے سے لاپتہ تھے اور ان کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں ایک کیس چل رہا تھا۔

صحافی عمران ریاض کی گرفتاری کے بعد غصہ اور احتجاج

سیالکوٹ کے محکمہ پولیس نے 25 ستمبر پیر کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) پر اپنی ایک پوسٹ میں اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا، '' صحافی/ اینکر مسٹر عمران ریاض خان کو بحفاظت بازیاب کر لیا گیا ہے۔ اب وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہیں۔''

کیا عمران ریاض کی گرفتاری کی مذمت کی جانا چاہیے؟

ان کے وکیل اشفاق نے بھی اپنی پوسٹ میں لکھا، ''خدا کی خاص مہربانی، فضل اور رحمت سے میں اپنے شہزادے کو واپس لایا ہوں۔''

عمران ریاض کو، نو مئی کو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دو دن بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

گرفتاری کے بعد انہیں آخری بار تھانہ کینٹ اور بعد ازاں سیالکوٹ جیل لے جایا گیا تھا۔ پھر اس کے بعد 15 مئی کو ایک لاء افسر نے لاہور ہائی کورٹ کو یہ بتایا تھا کہ صحافی عمران ریاض کو تحریری حلف نامے کے بعد جیل سے رہا کر دیا گیا۔

تاہم گرفتاری کے بعد سے وہ کبھی گھر واپس نہیں آئے اور ان کا کچھ پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ ان کی بازیابی کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا اور عدالت میں حکام ان کے ٹھکانے کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔

عمران ریاض کو، نو مئی کو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دو دن بعد گرفتار کیا گیا تھاتصویر: privat

بیس ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران پنجاب پولیس کے سربراہ کو 26 ستمبر تک ریاض کو بازیاب کرانے کا ''آخری موقع'' دیا تھا۔ سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے کہا تھا کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔

 اس معینہ تاریخ سے ایک روز پہلے ہی پولیس نے بتایا کہ وہ اپنے گھر محفوظ طریقے سے پہنچ گئے ہیں۔

بازیابی پر رد عمل

عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایکس پر لکھا، ''اللہ کے خاص فضل، کرم و رحمت سے اپنے شہزادے کو پھر لے آیا ہوں۔ مشکلات کے انبار، معاملہ فہمی کی آخری حد، کمزور عدلیہ و موجودہ غیر مؤثر سر عام آئین و قانونی بے بسی کی وجہ سے بہت زیادہ وقت لگا۔ ناقابل بیان حالات کے باوجود اللہ رب العزت نے یہ بہترین دن دکھایا اس وقت صرف بے پناہ شکر۔''

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی عمران ریاض کی واپسی کی تصدیق کی اور کہا کہ ''وہ ان بہت سے ناموں میں سے بس ایک ہیں، جو جبری گمشدگیوں کا شکار ہیں۔''

اس نے اپنی پوسٹ میں لکھا، ''یہ وہ معصوم لوگ ہیں جو چیئرمین عمران خان کی قیادت میں پاکستان کی سب سے بڑی اور واحد وفاقی پارٹی پی ٹی آئی کے ممبر اور حمایتی ہیں۔ یا وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک میں بے مثال فاشزم، واضح لاقانونیت، آئین کی معطلی اور جمہوریت کو ختم کرنے کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔''

اس نے مطالبہ کیا کہ ''تمام سیاسی قیدیوں اور ضمیر کے قیدیوں کو، جو غیر قانونی قید میں ہیں، کو فوری رہا کیا جانا چاہیے۔ قانون اور احساس کی بالادستی ہونی چاہیے۔''

صحافی وجاہت ایس خان نے کہا کہ انہوں نے ریاض کے اہل خانہ سے بات کی ہے اور گھر والوں نے بتایا ہے کہ عمران ریاض کافی ''کمزور ہیں اور ان کی صحت بہتر نہیں ہے، البتہ وہ واپس آگئے ہیں۔''

وکیل خدیجہ صدیقی نے اس پیش رفت کو ''مثبت علامت'' قرار دیا اور کہا، '' ایسا لگتا ہے کہ اختلافات کی آوازوں کو ڈھٹائی سے خاموش کرنے کا تازہ ترین طریقہ بری طرح ناکام ہو گیا ہے! ریاست پاکستان کو خود اپنے شہریوں کو اس طرح خوفزدہ نہیں کرنا چاہیے۔''

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

صحافیوں پر ہونے والے سائبر حملوں کی داستان

03:00

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں