1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صحافی مطیع اللہ جان کی گرفتاری اور دہشت گردی کا الزام

28 نومبر 2024

پاکستانی فوج کے ناقد صحافی مطیع اللہ جان کو گرفتار کرنے کے بعد ان پر دہشت گردی، منشیات فروشی اور پولیس پر حملے جیسے الزامات عائد کر دیے گئے ہیں۔وہ پولیس کے ہاتھوں پی ٹی آئی کارکنوں کی مبینہ ہلاکتوں کی تحقیقات کر رہے تھے۔

ٹیلی وژن میزبان مطیع اللہ جان پاکستانی سیاست میں فوج کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے ناقد کے طور پر جانے جاتے ہیں
ٹیلی وژن میزبان مطیع اللہ جان پاکستانی سیاست میں فوج کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے ناقد کے طور پر جانے جاتے ہیںتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

پاکستانی صحافی مطیع اللہ جان کو بدھ کی رات ایک سڑک سے اس وقت اٹھا لیا گیا تھا، جب وہ تحریک انصاف کے احتجاج میں شامل پی ٹی آئی ورکروں کی مبینہ ہلاکتوں کے دعوے کی تحقیقات کر رہے تھے۔ ٹیلی وژن میزبان مطیع اللہ جان پاکستانی سیاست میں فوج کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے ناقد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق مطیع اللہ جان کے اٹھا لیے جانے سے چند گھنٹے پہلے انہوں نے ایک ٹی وی شو کیا تھا، جس میں انہوں نے ایسے شواہد پیش کیے تھے، جو اس حکومتی موقف سے متصادم تھے، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے براہ راست فائرنگ نہیں کی تھی اور تحریک انصاف کا کوئی بھی کارکن ہلاک نہیں ہوا۔

مطیع اللہ جان کو کہاں سے اٹھایا گیا؟

مطیع اللہ جان کے ساتھی ثاقب بشیر نے جمعرات کے روز بتایا کہ ان دونوں کو اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کی کار پارکنگ سے سیاہ یونیفارم میں ملبوس افراد نے اٹھایا۔ ثاقب بشیر نے بتایا کہ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں ایک کار میں ڈال دیا گیا تھا۔ ثاقب بشیر کا کہنا تھا، ''ہم ہلاکتوں کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کر رہے تھے۔‘‘

اس واقعے کے تقریباً تین گھنٹے بعد ثاقب بشیر کو ایک گلی میں گاڑی سے اتار دیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس کے کارکن سینکڑوں مظاہرین کو فائرنگ کر کے زخمی کیا گیاتصویر: Aamir Qureshi/AFP

مطیع اللہ جان کے بیٹے عبدالرزاق نے ایک ویڈیو بیان میں اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے حکام سے اپنے والد کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ مطیع اللہ جان کی وکیل ایمان مزاری کے مطابق جان پر دہشت گردی، منشیات فروشی اور پولیس پر حملے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ایمان مزاری کا کہنا ہے، ''یہ کسی مذاق سے کم نہیں، ان الزامات میں ذرا بھی سچائی نہیں ہے۔‘‘

ثاقب بشیر نے بتایا کہ جان کے اہل خانہ کو جمعرات کی صبح پولیس لاک اپ میں ان تک رسائی دی گئی تھی۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے اس تناظر میں اسلام آباد پولیس اور وزارت اطلاعات سے رابطہ کیا لیکن کسی نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

مطیع اللہ جان نے ان سرکاری دعووں پر بھی شک ظاہر کیا تھا کہ کچھ سکیورٹی اہلکار مظاہرین کے قافلے میں شامل ایک گاڑی کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئے تھے۔

دو روز قبل عمران خان کی پارٹی، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ہزاروں حامی احتجاج کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچے تھے۔ حکومت نے کہا تھا کہ ان مظاہرین نے چار سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس کے کارکن سینکڑوں مظاہرین کو فائرنگ کر کے زخمی کیا گیاتصویر: Aamir Qureshi/AFP

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس کے کارکن سینکڑوں مظاہرین کو فائرنگ کر کے زخمی کیا گیا اور مبینہ طور پر آٹھ سے 40 تک کے درمیان کارکن  مارے گئے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے حتمی اور مصدقہ اعدا د و شمار ابھی تک سامنے نہیں آ سکے۔

صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ''کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘‘ نے مطیع اللہ جان کے ''اغوا‘‘ پر ''سخت خطرے کی گھنٹی‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

مطیع اللہ جان کو سن 2020 میں بھی عمران خان کے دور حکومت میں تقریباً 12 گھنٹے تک اغوا کیا گیا تھا۔

ا ا / م م (روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں