معروف خاتون صحافی مینا منگل کے قتل سے افغانستان میں خواتین کی زندگی کو لاحق خطرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ امید موہوم ہے کہ یہ صورت حال مستقبل قریب میں تبدیل ہو گی۔
اشتہار
افغانستان کی معروف صحافی اور سیاسی مشیر مینا منگل کو دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا۔ اس سے افغانستان میں خواتین کی سلامتی کے حوالے سے صورت حال ایک بار پھر واضح ہو گئی۔ مینا منگل متعدد ٹی وی چینلز کے لیے کام کرتی رہیں، تاہم بعد میں انہوں نے پارلیمان کی مشیر برائے ثقافت کے بہ طور اپنی ذمہ داریاں انجام دینا شروع کر دیں۔ انہیں ہفتے کے روز نامعلوم مسلح حملہ آوروں نے اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا، جب وہ کابل میں اپنے گھر سے دفتر کے لیے نکل رہی تھیں۔
پولیس نے اس واقعے کے بعد منگل کے سابقہ شوہر کی تلاش کے لیے چھاپے مارنا شروع کر دیے ہیں، کیوں کہ منگل کے والدین نے الزام عائد کیا تھا کہ ممکنہ طور پر وہی اس قتل میں ملوث ہو سکتا ہے۔ شکیب منگل نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ ان کی بہن کو ان کے سابقہ شوہر کے گھروالوں نےایک بار قید بھی کیا تھا۔ ’’میری بہن کے سسرال والوں نے انہیں دو برس قبل اغوا کیا تھا مگر ہم نے چند حکومتی عہدیداروں اور قبائلی عمائدین کی مدد سے انہیں رہا کروا لیا تھا۔ تاہم سابقہ شوہر مینا منگل کو مسلسل دھمکیاں دیتا رہتا تھا۔‘‘
شکیب منگل نے بتایا کہ ان کے اہل خانہ نے اس قتل کے حوالے سے شکایت مینا منگل کے سابقہ شوہر اور اس کے والدین کے خلاف درج کروائی ہے۔ کابل پولیس کا کہنا ہے کہ خاندانی جھگڑا اس قتل کا محرک ہو سکتا ہے، تاہم منگل کے بھائی کا اصرار ہے کہ تمام جھگڑوں کی بنیاد مینیا منگل کا کام کرنا اور نوجوان لڑکیوں کے حقوق کی لڑائی لڑنا تھا۔‘‘
خواتین کا عالمی دن: ایشیائی ممالک میں صنفی مساوات
گزشتہ چند برسوں میں صنفی مساوات کی صورتحال بہتر ہونے کے باوجود آج بھی ایشیائی خواتین اور لڑکیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے ایشین ممالک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا۔
تصویر: NDR
افغانستان
افغانستان میں امریکا کے زیر سربراہی بین الاقوامی فوجی اتحاد نے سن 2001 میں طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، جس کے بعد سے ملک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال نے ایک نیا موڑ لیا۔ تاہم موجودہ افغان حکومت میں طالبان کی ممکنہ نمائندگی کا مطلب ہے کہ خواتین ایک مرتبہ پھر تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہو جائیں گی۔
تصویر: Getty Images/R. Conway
ایران
ایرانی خواتین کی ایک فٹ بال ٹیم تو بن چکی ہے لیکن وہاں آزادی اور خودمختاری کی لڑائی آج بھی جاری ہے۔ ایرانی وکیل نسرین سوتودیہ کو پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی کیونکہ وہ اسکارف کی پابندی کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین کا دفاع کر رہیں تھیں۔
تصویر: Pana.ir
پاکستان
یہ پاکستان کی پہلی کار مکینک عظمٰی نواز (درمیان میں) کی تصویر ہے۔ یہ جنوبی ایشیائی ملک خواتین کی آزادی کے راستے پر گامزن ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کراچی میں خواتین ’عورت آزادی مارچ‘
#AuratAzadiMarch میں شرکت کر رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S.S. Mirza
بھارت
بھارت میں ’خواتین بائیکرز‘ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے مثبت اقدام کے باوجود خواتین جنسی تشدد اور ریپ کا نشانہ بنتی ہیں۔ گزشتہ برس، بھارت میں متعدد خواتین نے اپنے حقوق کے دفاع کے لیے آواز بلند کی۔ #MeToo مہم کے ذریعے متاثرہ خواتین معاشرے کے طاقتور مردوں کے خلاف سراپا احتجاج تھیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
انڈونیشیا
انڈونیشی خواتین ملکی ترقی کا اہم حصہ ہیں لیکن ان کو قدامت پسند مذہبی قوانین کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر آچے صوبے میں شرعی قوانین نافذ کیے جانے کے بعد خواتین کو اسکارف پہننے پر مجبور کیا گیا اور خواتین کا نا محرم مردوں سے بات چیت کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔
تصویر: Imago/C. Ditsch
سری لنکا
سری لنکا میں صنفی مساوات کی صوتحال قدراﹰ بہتر ہے۔ سری لنکن خواتین تعلیم اور روزگار کا انتخاب خود کر سکتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکا شاید واحد ایسا ملک ہے، جہاں خواتین کو صحت اور تعلیمی سہولیات تک بھرپور رسائی حاصل ہے۔
تصویر: Imago/Photothek
بنگلہ دیش
بنگلہ دیشی عوام دو دہائیوں سے زائد عرصے سے ایک خاتون کا بطور وزیراعظم انتخاب کر رہے ہیں۔ ان کے دور حکومت میں خواتین کے حقوق میں واضح بہتری پیدا ہوئی ہے۔ تاہم روزگار کی منڈی میں خواتین کی نمائندگی ابھی بھی کم ہے اور صحت و تعلیم تک محدود رسائی ہے۔
تصویر: DW/M. M. Rahman
چین
چینی خواتین کو بلاشبہ ملک کی تیز معاشی ترقی سے فائدہ حاصل ہوا ہے لیکن ان کو سماج میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ آج بھی بچیوں کی پیدائش کے حوالے سے سماجی تعصب موجود ہے۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں تعلیم تک محدود رسائی فراہم کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele
8 تصاویر1 | 8
مینا منگل کی ہلاکت سے افغانستان میں ملازمت پیشہ خواتین کو لاحق خطرات کی عکاسی ہوتی ہے۔ افغانستان کے قدامت پسند معاشرے میں زیادہ تر مرد یہ سمجتے ہیں کہ خواتین کو گھروں میں رہنا چاہیے۔ سن 2018ء میں تھومس روئٹرز فاؤنڈیشن نے افغانستان کو خواتین کی سلامتی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا سب سے بدترین ملک قرار دیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سن 2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے برسوں گزر جانے کے باوجود افغانستان میں خواتین کے بااختیار اور تعلیم یافتہ بنائے جانے کے حوالے سے نہایت کم پیش رفت ہوئی ہے۔