’صحت کے لیے وِن وِن پالیسی آپشن‘
7 جولائی 2015ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ اس طرح تمباکو نوشی کے سبب ہونے والی اموات میں کمی اور صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس بارے میں عالمی ادارے نے ایک رپورٹ باعنوان ’’ دا گلوبل ٹوبیکو اپپیڈیمک دوہزار پندرہ‘‘ یا ’ٹوبیکو کی وبا کی عالمی رپورٹ برائے 2015‘ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کی صحت کی اس ایجنسی نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں بہت کم حکومتیں تمباکو پر لگے ٹیکس کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اسے عوام میں تمباکو نوشی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے بروئے کار لا رہی ہیں۔ اس عالمی ادارے کا موقف یہ ہے کہ تمباکو ٹیکس سے حاصل کی جانے والی رقوم کو تمباکو نوشی کے خلاف مہم پر صرف کیا جائے۔ مثال کے طور پر تمباکو نوشی کرنے والوں میں اس عادت کے مضر صحت ہونے کے بارے میں شعور بیدار کرنے کی کوششیں تیز تر کی جانی چاہییں تاکہ تمباکو نوشی میں کمی اور رفتہ رفتہ اسے ترک کرنے کا رجحان پیدا ہو سکے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ سگریٹ کے ایک پیکٹ کی قیمت کا 75 فیصد ٹیکس کے طور پر لیا جانا چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں ہر چھ سیکنڈ میں ایک شخص تمباکو نوشی کی وجہ سے جنم لینے والی کسی نا کسی بیماری کے سبب موت کے مُنہ میں چلا جاتا ہے اور اس طرح سالانہ بنیادوں پر یہ تعداد چھ ملین بنتی ہے۔ اس تعداد میں 2030 ء تک اضافے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تب تک اگر ’تمباکو نوشی کی وبا‘ پر کنٹرول نہ کیا گیا تو دنیا بھر میں تمباکو نوشی سے متعلق بیماریوں کی وجہ ہے ہر سال ہونے والی اموات 8 ملین سے زائد ہونے کا امکان ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ دینا بھر میں اس وقت ایک ارب افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں لیکن بہت سے ممالک میں اب بھی تمباکو ٹیکس بہت کم ہے اور چند ممالک میں تو تمباکو پر کوئی خصوصی ٹیکس سرے سے ہے ہی نہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی ڈائریکٹر جنرل مارگریٹ چین نے اس رپورٹ میں کہا ہے کہ’’ تمباکو ٹیکس میں اضافہ دراصل تمباکو کی کھپت میں واضح کمی کا موثر ترین ذریعہ ہے اور اس کی مدد سے تمباکو کی اُن مصنوعات کا استعمال بھی کم کیا جا سکتا ہے جو لاتعداد انسانوں کی جان لے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ اس سے کافی ٹیکس بھی جمع ہو گا‘‘۔
تمباکو نوشی کینسر، امراض قلب، پھیپھڑوں کی بیماریوں اور زیابیطیس جیسی مہلک غیر متعدی بیماریوں کے چار خطرے والے عوامل میں سے ایک ہے۔ 2012 ء میں ان بیماریوں کے سبب ہلاک ہونے والے 70 سال سے کم عمر کے افراد کی تعداد 16 ملین بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے 80 فیصد اموات غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ہوئیں۔