1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدارتی انتخابات: تیس جولائی کو ہی

شکور رحیم24 جولائی 2013

پاکستانی الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ملک کے آئندہ صدارتی انتخابات تیس جولائی کو منعقد کرانے کے لئے نیا شیڈول جاری کر دیا ہے۔

تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے حکومتی امیدوار کو فائدہ پہنچے گا۔

اس سے پہلے الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات چھ اگست کو کرانے کا اعلان کیا تھا تاہم حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر راجہ ظفرالحق نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو منگل کے روز سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور صدارتی انتخابات 30 جولائی کو ہی کرانے کی استدعا کی۔ ان کا مؤقف تھا کہ رمضان کا آخری عشرہ ہونے کے سبب چھ اگست کو ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت عمرے اور اعتکاف جیسی عبادات میں مصروف ہو گی۔

بدھ کے روز چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اس درخواست کی مختصر سماعت کے بعد الیکشن کمیشن کو صدارتی انتخاب تیس جولائی کو ہی کرانے کا حکم دے دیا۔

تاحال صدر آصف علی زرداری کے عہدے کی مدت ستمبر میں ختم ہو رہی ہےتصویر: Getty Images

عدالتی حکم جاری ہونے کے بعد راجہ ظفرالحق کا کہنا تھا کہ اس سے جمہوری عمل کو فروغ ملے گا اور صدارتی انتخاب میں زیادہ سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ کی شرکت سے اس کی ساکھ بڑھے گی۔ راجہ ظفرالحق نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ فیصلہ دیگر سیاسی جماعتوں کو سنے بغیر دیا گیا۔ انہوں نے کہا:"اس معاملے میں کسی کا استحقاق متاثر نہیں ہوا بلکہ صدارتی انتخاب کا عمل مزید بہتر انداز سے ہو گا۔ سب کو یہ سمجھنا چاہے کہ رمضان کا آخری عشرہ مسلمانوں کے لئے کتنا اہم ہے، میرے خیال میں اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ انتخابات کے نتائج پر اثر انداز نہیں ہو گا۔"

اپوزیشن کی جانب سے اعتراضات

دوسری جانب اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عدالتی فیصلے پر کڑی تنقید کی۔ پی پی پی کے صدارتی امیدوار میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے سے ان کی انتخابی مہم متاثر ہوئی ہے، عدالت کو دیگر فریقین کو سنے بغیر یہ حکم نہیں دینا چاہیے تھا۔ سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ انصاف کے تقاضوں اور سپریم کورٹ کے اپنے فیصلوں کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "جج سب کو کہتے ہیں کہ اہنے اپنے دائرہ اختیار میں کام کریں، کاش سپریم کورٹ بھی اپنے دائرہ اختیار میں کام کرتی۔"

آئینی ماہر اور سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل جسٹس (ر) طارق محمود کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اسے چاہیے کہ اپنے اختیارات پر زور دے۔ انہوں نے کہا کہ "آج بھی جو جواب دیا الیکشن کمشن نے، اس میں کہا ہے کہ ہمیں وقت دیا جائے لیکن یہ پھر خود ہی یہ کہہ کر دستبردار ہو گئے کہ عدالت جو کہے گی، وہ ہمیں منظور ہے۔ تو انہوں نے اپنے اختیارات کوخود ہی کم کر دیا۔‘‘

امیدواران برائے صدارت

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے انتخابی شیڈول کے تحت صداری امیدواروں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا آج (بدھ) آخری دن تھا۔ اس موقع پر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پارٹی کے دیرینہ وفادار ممنون حسین کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ممنون حسین انیس سو ننانوے میں نواز دور حکومت میں صرف چار ماہ کے لیے گورنر سندھ رہے تھے۔ اب ان کا دوبارہ انتخاب سندھ کی کسی شخصیت کو اہم عہدہ دے کر یہ تاثر بھی زائل کرنا تھا کہ (ن) لیگ پنجابی رہنماؤں کے زیر تسلط ہے۔ عددی برتری کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ(ن) اور اس کی اتحادی جماعتیں صدارتی انتخابات آسانی سے جیت لیں گی۔

سینیٹر اعتزاز احسن کے مطابق عدالتی فیصلہ انصاف کے تقاضوں اور سپریم کورٹ کے اپنے فیصلوں کی خلاف ورزی ہےتصویر: dapd

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے صدارتی عہدے کے لیے سینیٹر رضا ربانی نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے۔ انہیں اپوزیشن جماعتوں اے این پی اور مسلم لیگ(ق) کی حمایت بھی حاصل ہے۔

حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف نے جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کے کاغذات نامزدگی جمع کرا ئے ہیں۔


الیکشن کمشن کا ترمیم شدہ الیکشن شیڈول

سپریم کورٹ کے حکم کے تحت الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کا جو نیا شیڈول جاری کیا ہے، اس کے مطابق امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال چھبیس جولائی کو ہو گی۔ ستائیس جولائی تک کاغذاتِ نامزدگی واپس لیے جا سکتے ہیں اور اسی دن شام پانچ بجے انتخاب میں حصہ لینے کے اہل امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی جائے گی۔ سابقہ شیڈول کے مطابق یہ فہرست انتیس جولائی کو جاری کی جانا تھی۔ صدارتی انتخاب کے لئے پولنگ تیس جولائی کو ہو گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں