صدام حسین دو دہائیوں کے بعد بھی اردن میں مشہور کیوں؟
24 اگست 2023بیس مارچ 2003 کو سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق میں ڈیڑھ لاکھ امریکی اور 40 ہزار برطانوی فوجی دستے بھیج کر 'عراق فریڈم آپریشن‘ شروع کیا تھا۔ بش انتظامیہ کے مطابق عراق کے پاس موجود مبینہ خطرناک ہتھیاروں کو تباہ کرنے کے لیے یہ آپریشن ترتیب دیا گیا تھا۔
سن 1979 میں صدام دور کی ابتدا ہوئی تھی اور وہ عرب ممالک کے ایک با اثر لیڈر سمجھے جاتے تھے۔ نو اپریل 2003 کو واشنگٹن کی جانب سے بغداد پر قبضے کے اعلان کے فوری بعد صدام حسین آخری بار عراقی عوام کے درمیان نظر آئے تھے۔ بغداد میں امریکی قبضے کے بعد وہ آٹھ ماہ تک روپوش رہے، جس کے بعد امریکی فوج نے ان کا سراغ لگایا اور گرفتار کر لیا۔
صدام حسین کو مجرم قرار دینے کے بعد انہیں 30 دسمبر 2006 کی صبح عراق میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
گزشتہ سال عراق کے قومی دن کے موقع پر سابق عراقی صدر صدام حسین کے دورِ اقتدار کو سراہنے والے چار افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اردن میں آج بھی کئی لوگ صدام حسین کے فلسطین کے موقف کی وجہ سے انہیں پسند کرتے ہیں۔
صدام انتظامیہ کی جانب سے اردن کے طلباء کے لیے مقرر وظیفہ
اردن پارلیمان کے ممبر خلیل عطیہ کا کہنا ہے کہ صدام کے دورِ حکومت میں اردن کے ہزاروں نوجوانوں کو عراقی جامعات میں مفت تعلیم دی جاتی تھی اور ان کے لیے ماہانہ وظیفہ بھی مقرر تھا۔ خلیل کے مطابق صدام نے بے شمار فلسطینی گھرانوں کی کفالت کی تھی اور فلسطین اسرائیل جنگ میں مسمار ہونے والے گھروں کو بھی دوبارہ تعمیر کروایا تھا۔
اردن میں دو دہائیوں کے بعد بھی صدام حسین کی مقبولیت سے متعلق خلیل کا کہنا ہے کہ ''اردن کے عوام کے لیے صدام حسین ایک ہیرو‘‘ ہیں۔ اردن میں شاہراہوں اور مختلف مقامات پر عیاں کی گئیں صدام حسین کی تصاویر اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ یہاں کے عوام انہیں بیس برس بعد بھی نہیں بھولے۔
عراق اور کرپشن
67 سالہ سلامی بلیوی اردن میں رہتے ہیں اور پیشے کے اعتبار سے ایک ٹھکیدار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صدام حسین عرب ممالک کا ''محسن اور ایماندار ہیرو‘‘ ہیں۔ عراق کے موجودہ معاشی حالات سے متعلق سلامی کا کہنا ہے کہ ماضی میں ہونے والی ایران عراق جنگ کے باوجود عراق معاشی طور پر کافی مضبوط تھا لیکن صدام حسین کی حکمرانی کے بعد بدعنوانی نے عراق کو برباد کر دیا۔
عالمی اداروں کے مطابق عراق کا شمار دنیا کے ان 25 ممالک میں ہوتا ہے، جہاں کرپشن عروج پر ہے۔
عراق کے سابق وزیرِاعظم مصطفی الکاظمی نے بھی عراق میں مالی بدعنوانی کا ذکر کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سن 2003 کے بعد 600 بلین ڈالر سے زائد رقم بدعنوان افراد اور سیاسی جماعتوں کی جیبوں میں گئی۔
اردن کے دارالحکومت امان میں موبائل فون کی دکان چلانے والے 67 سالہ ابو شہیر کہتے ہیں کہ صدام کے دورِ اقتدار کا خاتمہ اصل میں عراق کی تباہی کا سبب بنا اور صدام حسین کے بعد عراق اب تک سیاسی اور معاشی طور پر نہیں سنبھل سکا۔
عراق میں ایک اور رجحان یہ بھی پایا جاتا ہے کہ تہران حکومت عراق میں کافی حد تک متحرک ہے۔ ظہیر عملیہ امان میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے مطابق عراق کی حکمران جماعت ایک لسانی اور تہران کی نمائندہ جماعت ہے۔
سن 2003 میں عراق میں ہونے والے فسادات میں بیشتر شیعہ اور اسلام پسند مسلح عناصر شامل تھے، جنہوں نے پڑوسی ملک ایران میں پناہ لے رکھی تھی۔ ان میں بعض افراد ایسے بھی تھے، جنہوں نے 1980 کی جنگ میں ایران کا ساتھ دیا تھا۔
عراقی باڈی کاؤنٹ گروپ کے مطابق سن 2011 میں، جس وقت امریکی افواج نے عراق کو چھوڑا، اس وقت تک اس تنازعہ میں ایک لاکھ سے زائد عراقی شہری اور 4500 امریکی ہلاک ہو چکے تھے۔
خلیل کے مطابق صدام حسین، وہ واحد عرب حکمران تھے، جو چاہتے تھے کہ عرب قوم کی دنیا میں اپنی پہچان ہو، '' اسی بنیاد پر انہوں نے جدید اسلحہ بنانے کے کارخانے لگائے تھے۔‘‘
19 سالہ نوجوان انس ناہاس کہتے ہیں، ''یمن اور شام میں جاری جنگ جبکہ اسرائیل کا فلسطینی زمین پر قبضہ ظاہر کرتے ہیں کہ عرب ممالک زوال کا شکار ہیں۔‘‘
امان کے رہائشی انس ناہاس کے موبائل پر بھی صدام حسین کی تصویر چسپاں ہے۔ ان کا کہنا ہے، ''اگر صدام حسین زندہ ہوتے تو آج بہت کچھ ایسا نہ ہوتا۔‘‘
ا ش / ا ا (اے ایف پی)