1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدر اشرف غنی کی پیشکش کی کبھی حمایت نہیں کریں گے، طالبان

24 مارچ 2021

طالبان نے افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے رواں سال کے آخر میں انتخابات کروانے کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ کئی ماہ سے فریقین کے مابین جاری امن مذاکرات میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو پائی ہے۔

Aschraf Ghani
تصویر: Reuters/M. Ismail

افغان صدر نے ابھی تک اپنی تجویز سے متعلق کوئی تفصیلات نہیں بیان کی ہیں تاہم کابل میں دو سرکاری عہدیداروں نے کہا ہے کہ اشرف غنی آئندہ ماہ ترکی میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی کانفرنس کے موقع پر اپنے الیکشن پلان کا اعلان کریں گے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے ایک افغان سینیئر حکومتی اہلکار نے کہا، ''حکومت اپریل میں ترکی میں ہونے والی کانفرنس میں افغانستان میں قبل از وقت انتخابات کے اپنے نئے منصوبے کے ساتھ شرکت کرے گی، جو افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک منصفانہ پلان ہے۔‘‘

’دوحہ کانفرنس‘ جائز مطالبات سے آگاہ کرنے کا موقع ہے، طالبان

طالبان کا موقف

افغان صدر اشرف غنی کی رواں سال کے آخر میں انتخابات کروانے کی تجویز کو طالبان نے فوری طور سے مسترد کر دیا ہے۔ اس بارے میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا، '' اس طرح کے اقدامات اور انتخابات نے ماضی میں بھی افغانستان کو بحران کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔‘‘

طالبان کے ترجمان نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا، ''وہ اب ایک ایسے عمل کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جو ہمیشہ ہی سے اسکینڈلز سے بھرپور رہا ہے۔‘‘ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ملک کے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ فریقین کے مابین جاری مذاکرات کے  ذریعے ہم آہنگ بنانا لازمی ہے، ''ہم اس کی حمایت کبھی نہیں کریں گے۔‘‘

قطر ميں اجلاس، موسمياتی تبديلياں زير بحث

 

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد۔تصویر: picture-alliance/dpa

امریکی مخالفت

گزشتہ برس امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والی امن ڈیل کے مطابق واشنگٹن کو اس سال یکم مئی تک افغانستان میں موجود اپنے آخری فوجی واپس بلانا ہوں گے۔ جبکہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ماہ کے شروع میں کہا تھا، '' اس  ڈیڈ لائن کے اندر اندر فوجی انخلاء کا عمل مکمل کرنا بہت کٹھن ہو گا۔‘‘

اس معاہدے نے طالبان اور افغان حکومت کے لیے بھی ایک امن منصوبے پر بات چیت کرنے کی راہ ہموار کی تھی تاکہ معاہدے کے ذریعے یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اس ملک پر کس طرح حکمرانی کی جانی چاہیے؟ لیکن قطری دارالحکومت دوحہ میں ستمبر کے بعد سے ہونے والے ان مذاکرات میں بہت کم پیش رفت ہو پائی ہے۔

افغانستان کے الیکشن کی پیچیدہ تاریخ

افغانستان میں الیکشن ہمیشہ سے ایک بہت گھمبیر عمل رہا ہے۔ انتخابات کی راہ میں بہت سارے مسائل آڑے آتے ہیں۔ جنگ سے تباہ حال اس ملک میں انتخابات دھوکا دہی، بہت کم ووٹرز ٹرن آؤٹ اور شورش پسندوں کے لیے تشدد پھیلانے کا ایک اور موقع ثابت ہوتے ہیں۔

اب امریکا، روس اور دیگر اسٹیک ہولڈرز چاہتے ہیں کہ افغانستان میں کسی نا کسی شکل میں ایک عبوری حکومت تشکیل پا جائے۔ لیکن موجودہ صدر اشرف غنی کا اصرار ہے کہ 'قائدین کا انتخاب‘ صرف بیلٹ باکس کے ذریعے ہی کیا جائے۔

مقررہ تاریخ تک فوج کا افغانستان سے انخلاء ’مشکل‘، بائیڈن

 

11 مارچ 2021 ء کو دوحہ منعقدہ سہ فریقی مذاکرات کے موقع پر مشترکہ پریس کانفرنس۔تصویر: Russian Foreign Ministry/dpa/TASS/picture alliance

امریکی افواج کے انخلاء کا معاملہ

طالبان کی جانب سے افغان صدر کی پیش کش کا فوری رد عمل ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن نے برسلز میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اپنے پہلے دورے کے دوران اتحادی لیڈروں سے مذاکرات میں بتایا کہ واشنگٹن ابھی اس معاملے میں ناپ تول کر رہا ہے کہ آیا یکم مئی کی ڈیڈ لائن تک وہ اپنی باقی ماندہ فورسز افغانستان سے واپس بلا لے یا نہیں۔

 اُدھر کابل حکومت ملک میں امریکی فورسز کو جب تک ممکن ہو سکے تعینات رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اس کے پاس سب سے بڑی دلیل یا جواز یہ ہے کہ گزشتہ چند مہینوں سے یہ ملک پھر سے بڑھتے ہوئے تشدد کی لپیٹ میں ہے۔

طالبان کو افغانستان کے میدان جنگ میں بہت زیادہ فوائد کے حصول کے بعد اب مذکورہ اسٹریٹیجی میں سے کسی ایک سے بھی اپنے فائدے کے حصول کی امید نہیں ہے۔ طالبان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے گزشتہ ہفتے ماسکو کی ایک کانفرنس میں کہا تھا، ''افغانوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔‘‘

ک م/ا ا ( اے ایف پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں