امریکی صدر اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ آج جنیوا میں ملاقات کر رہے ہیں۔ یہ ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب دونوں رہنما اس بات سے متفق ہیں کہ باہمی تعلقات انتہائی کم ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں -
اشتہار
جو بائیڈن جی سیون، نیٹو اور یورپی یونین سربراہی کانفرنسوں میں شرکت کے بعد سوئٹزرلینڈ کے دارلحکومت جنیوا پہنچے ہیں۔ جہاں وہ امریکی صدر کی حیثیت سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ پہلی مرتبہ بالواسطہ بات چیت کریں گے۔ یہ ملاقات گزشتہ چار مہینوں کے دوران دونوں رہنماوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی کے بعد ہورہی ہے۔ البتہ دونوں ملک تعلقات کو زیادہ 'مستحکم‘ بنانے کے خواہاں ہیں۔
صدر بائیڈن روسی سائبر ہیکروں کے ذریعہ امریکی مفادات کے خلا ف سائبر حملوں کے لیے پوٹن کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔ انہوں نے روسی اپوزیشن لیڈر کو جیل میں ڈالنے پر اسے جمہوریت کی توہین قرار دیا تھا جبکہ امریکی انتخابات میں مداخلت کے الزامات بھی عائد کیے تھے۔
روسی صدر پوٹن تاہم ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔انہوں نے ایک انٹرویو میں امریکی الیکشن میں مداخلت کے الزامات مسترد کرتے ہوئے امریکا سے ثبوت پیش کرنے اور سائبر معاملات پر معاہدے کی پیشکش کی ہے۔
کیا بات ہوگی؟
دونوں رہنماوں کے درمیان بند دروازے کے پیچھے چار تا پانچ گھنٹے تک با ت چیت ہونے کی امید ہے۔
اشتہار
حکام کے مطابق بائیڈن اور پوٹن ابتدا میں اکیلے میں بات کریں گے۔ ان کے ساتھ صرف مترجمین اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف موجود ہوں گے۔ بعد میں دونوں صدور کے ساتھ پانچ پانچ عہدیدار شامل ہوجائیں گے اور تفصیلی بات چیت ہوگی جو چار سے پانچ گھنٹے تک چلنے کی امید ہے۔ بات چیت کے اختتام پر کوئی مشترکہ پریس کانفرنس نہیں ہوگی۔ البتہ دونوں رہنما میڈیا سے الگ الگ خطاب کریں گے۔
دونوں ملکوں کے صدور کے درمیان ہونے والی ملاقات میں امریکا کے صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت، سائبر سکیورٹی، مشرق وسطیٰ کی صورتحال، افغانستان سے انخلا اور یوکرائن کی صورتحال وغیرہ پر بات چیت کا امکان ہے۔
دونوں ملکوں کے عہدیداروں نے تاہم بات چیت سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں رکھی ہیں۔ امریکی صدر کے ساتھ دورے میں موجود ایک اعلی امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا”ہمیں بات چیت سے کسی بڑی کامیابی کی امید نہیں ہے۔"
صدر بائیڈن نے کیا کہا؟
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ بات چیت میں کیا ہوگا۔ امریکا اور روس دونوں ہی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں۔ تاہم خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق دونوں رہنما اپنے اپنے اہداف کے ساتھ بات چیت کرنے جا رہے ہیں اور دونوں نے تعلقات کو مستحکم کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔
جنیوا پہنچنے پر ایک صحافی نے جب بائیڈن سے ولادیمیر پوتن کے ساتھ ملاقات کے بارے میں پوچھا تو امریکی صدر نے کہا”میں ہمیشہ تیار رہتا ہوں۔"
اس سے قبل نیٹو سربراہی کانفرنس کے دوران بائیڈن نے کہا تھا''میں روس کے خلاف کسی طرح کا تصادم نہیں چاہتا لیکن اگر روس اپنی نقصان دہ سرگرمیاں جاری رکھتا ہے تو ہم اس کا جواب دیں گے۔"
عوامیت پسند یورپی رہنما کیا روس کے ساتھ ہیں؟
سن 2014 میں یوکرائنی بحران کے باعث یورپی یونین امریکا کی طرف راغب ہوئی اور روس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یوں کئی اہم یورپی رہنما ماسکو حکومت سے دور ہو گئے تاہم عوامیت پسند یورپی سیاست دان روس کی طرف مائل ہوتے نظر آئے۔
تصویر: DW/S. Elkin
سٹراخا روس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حامی
آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Bader
’روس اور سفید فام دنیا‘، ژاں ماری لے پین
فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سیاسدتان ژاں ماری لے پین کو 2015ء میں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے کہا کہ فرانس کو روس کے ساتھ مل کر ’سفید فام دنیا‘ کو بچانا چاہیے۔ قبل ازیں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نازی جرمن دور کے گیس چیمبرز ’تاریخ کی ایک تفصیل‘ ہیں۔ ان اور ایسے ہی دیگر بیانات کی وجہ سے ان کی بیٹی مارین لے پین نے انہیں اپنی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ سے بے دخل کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/G. Fuentes
’روس کے اثر میں نہیں‘، مارین لے پین کا اصرار
فرانسیسی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں ’بالکل بیوقوفانہ‘ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کریمیا ہمیشہ سے ہی روس کا حصہ تھا‘۔ نیشنل فرنٹ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے روسی بینکوں سے قرضے لیے تاہم لے پین کے بقول روس کا ان پر یا ان کی پارٹی پر اثرورسوخ نہیں ہے۔ سن 2017ء میں انہوں نے کریملن میں روسی صدر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Klimentyev
متبادل برائے جرمنی کے روس کے ساتھ مبینہ تعلقات
مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی روسی پس منظر کے حامل ووٹرز میں قدرے مقبول ہے۔ اس پارٹی کی سابق رہنما فراؤکے پیٹری نے سن 2017ء میں روسی صدر کی سیاسی پارٹی کے قانون سازوں سے ماسکو میں ملاقات کی تھی۔ اے ایف ڈی روس پرعائد پابندیوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتی ہے۔ تاہم اس پارٹی کے رہنما ایلیس وائیڈل اور الیگزینڈر گاؤلینڈ کے بقول اے ایف ڈی پوٹن یا ان کی ’مطلق العنان حکومت‘ کی حمایت نہیں کرتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
وکٹور اوربان کے پوٹن کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کئی مرتبہ بوڈا پیسٹ میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کر چکے ہیں۔ دونوں رہنما اپنے طرز حکمرانی کے طریقہ کار میں کئی مماثلتیں رکھتے ہیں۔ اوربان کا کہنا کہ ہے یورپی سیاستدان خود کو اچھا دکھانے کی کی خاطر پوٹن کو ’برا‘ ثابت کرتے ہیں۔ تاہم سیرگئی اسکریپل پر کیمیائی حملے کے بعد روسی اور یورپی سفارتی بحران کے نتیجے میں ہنگری نے روسی سفارتکاروں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters/Laszlo Balogh
گیئرت ولڈرز کا دورہ روس اور تنقید
اسلام مخالف ڈچ سیاست دان گیئرت ولڈرز نے سن 2014ء میں پرواز MH-17 کے مار گرائے جانے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 2018ء میں ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی۔ تاہم روس کے ایک حالیہ دورے کے بعد ان کے موقف میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے اب کہا ہے کہ وہ نیٹو اور امریکا کے حامی ہیں لیکن مہاجرت کے بحران اور مسلم انتہا پسندی کے خلاف روس ایک اہم حلیف ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Dejong
اٹلی کے نئے نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی
اٹلی میں حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت میں عوامیت پسند سیاسی جماعت ’لیگ‘ اور فائیو اسٹار موومنٹ شامل ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں روس پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کو ’جارحانہ‘ اقدامات نہیں کرنا چاہییں۔ لیگ کے اعلیٰ رہنما ماتیو سالوینی ملک کے نئے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ’امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
7 تصاویر1 | 7
امیدیں اور امکانات
مبصرین کا تاہم کہنا ہے کہ دونوں رہنما اپنے اختلافات کو دور کرنے کے تئیں پر امید ہیں۔
کریملن میں واقع رشیئن انٹرنیشنل افیئرز کونسل کے ڈائریکٹر جنرل آندرے کرتونوف نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک پوٹن کا معاملہ میں ”میں سمجھتا ہوں کہ وہ استحکام چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ روس اور امریکا کے درمیان خراب تعلقات کم ازکم مستقبل قریب میں ختم نہیں ہونے والے ہیں لیکن اسی کے ساتھ تعاون کے کچھ ایسے شعبے ہیں جن میں پیش قدمی کی جا سکتی ہے۔ اور
اختلافات برقراررہنے کے باوجود انہیں قابو میں رکھا جا سکتا ہے اور خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔"
امریکا میں یورپی یونین کے سابق سفیر ڈیوڈ او سولیوان نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا”صدر بائیڈن کافی زیرک سیاست داں ہیں۔ وہ روس سے بخوبی واقف ہیں۔ میرے خیال میں وہ اہم نکات پر کھل کر لیکن ٹھوس انداز میں بات کریں گے۔ وہ پوٹن سے کہہ سکتے ہیں کہ دیکھیں، ہم ہر چیز پرتو متفق نہیں ہو سکتے۔ آئیے ہم ایک ساتھ چلنے کا کوئی ایسا راستہ تلاش کرتے ہیں جس سے ایک دوسرے کی پریشانیوں میں اضافہ نہ ہو۔"
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔