1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بشار الاسد کا دورہ ایران: وزیر خارجہ ظریف کو علم ہی نہیں تھا

5 مارچ 2019

شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے پہلی بار صدر بشارالاسد جب گزشتہ ہفتے ایران کے دورے پر گئے تو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کو اس دورے کا قبل از وقت علم ہی نہیں تھا۔ یہ بات ایرانی وزارت خارجہ کے حوالے سے بتائی گئی ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای، دائیں، شامی صدر بشارالاسد سے گلے ملتے ہوئےتصویر: Leader.ir

سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے منگل پانچ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ایرانی خبر رساں ادارے اِسنا نے آج بتایا کہ شامی صدر بشارالاسد نے پچھلے ہفتے ایران کا جو دورہ کیا تھا، اس کے لیے ملکی وزیر خارجہ تک کو قبل از وقت کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے ہی جواد ظریف نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔

اِسنا ایران میں خاص طور پر طلبہ سے متعلقہ امور کی خبریں ترسیل کرنے والا ادارہ ہے اور اس نیوز ایجنسی نے اپنی اس رپورٹ کے ذریعے کے طور پر تہران میں ملکی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی کا حوالہ دیا ہے۔

وزیر خارجہ تک اندھیرے میں

سیاسی ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک میں یہ بات عام طور پر ناقابل فہم سمجھی جائے گی کہ کسی ایک حلیف ملک کا صدر اگر کسی دوسرے اتحادی ملک کا دورہ کرے، تو میزبان ملک کے وزیر خارجہ تک کو اس کا قبل از کوئی علم نہ ہو۔ ایرانی طلبہ نیوز ایجنسی نے اس بارے میں جو دعویٰ کیا ہے، وہ بظاہر سچ معلوم ہوتا ہے کہ جواد ظریف نے شامی صدر بشار الاسد کے اس دورے کے بارے میں اپنے قبل از وقت مکمل اندھیرے میں رکھنے جانے کے خلاف احتجاجاﹰ استعفیٰ دیا تھا۔

تہران میں بشارالاسد نے ایرانی ہم منصب حسن روحانی سے بھی ملاقات کی تھیتصویر: Mehr

یہی نہیں بلکہ ظریف نے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کرنے کے اگلے ہی روز یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ایران میں داخلی سیاست میں جو رسہ کشی جاری ہے، وہ ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ جواد ظریف ابھی تک ایرانی وزیر خارجہ کے فرائض اس لیے انجام دے رہے ہیں کہ ملکی صدر حسن روحانی نے ظریف کے استعفے کو گزشتہ بدھ کے روز مسترد کر دیا تھا۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریفتصویر: Fars

ظریف روحانی کے قریبی معتمد

روئٹرز نے لکھا ہے کہ اعتدال پسند جواد ظریف اصلاحات پسند صدر حسن روحانی کے ایک قریبی معتمد ہیں اور ان کی ایرانی کابینہ میں موجودگی صدر روحانی کے لیے تقویت کا باعث ہے۔ لیکن دوسری طرف ظریف یہ بھی جانتے ہیں کہ ایرانی سیاست میں بہت بااثر سخت گیر عناصر ظریف کو بار بار نشانہ بھی بناتے رہتے ہیں۔

کئی ایرانی ماہرین کا خیال یہ بھی ہے کہ ایران میں ملکی سیاست مختلف لیکن بہت واضح دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے: سخت گیر مذہبی سوچ والے قدامت پسند حلقے، اصلاحات کی حمایت کرنے والے اعتدال پسند عناصر اور پھر وہ عوامی حلقے بھی، جو اپنے لیے زیادہ جمہوری حقوق چاہتے ہیں۔ لیکن غیر جانبدار مبصرین کی رائے میں جواد ظریف کا ایک بہت بڑا کارنامہ 2015ء میں طے پانے والی وہ ڈیل تھی، جو تہران اور کئی بین الاقوامی طاقتوں کے مابین طے پائی تھی اور جس کی مدد سے تب ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق تنازعہ حل کر لیا گیا تھا۔ تب ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو غیر عسکری بنانے کا عہد کیا تھا اور عالمی طاقتوں نے تہران کے خلاف پابندیاں اٹھانے کی حامی بھری تھی۔

اس معاہدے کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا تھا، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد اس معاہدے اور ایران پر تنقید کرنا شروع کر دی تھی۔ پھر انہوں نے یکطرفہ طور پر امریکا کے اس معاہدے سے نکل جانے کا اعلان بھی کر دیا تھا اور ایران کے خلاف ایک بار پھر سخت پابندیاں عائد کر دی تھی۔

قدس فورس

دوسری طرف یہ بات اپنی جگہ ناقابل فہم ہے کہ ایران کی اعلیٰ ترین قیادت نے جواد ظریف کو بشارالاسد کے دورے کے بارے میں قبل از وقت آگاہ کیوں نہیں کیا تھا۔ شامی صدر نے اس دورے کے دوران تہران میں محافظین انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی سے بھی ملاقات کی تھی اور دیگر اعلیٰ ملکی شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ وہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے بھی ملے تھے۔ قدس فورس ایران کے ان دستوں کا نام ہے، جو ایران کی قومی سرحدوں سے باہر کارروائیوں کے ذمے دار ہیں۔

اِسنا نے صدر اسد کے دورے اور پھر جواد ظریف کے استعفے کے بارے میں لکھا ہے، ’’اس استعفے کی بڑی وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ صدر بشارالاسد کے دورے کے سلسلے میں تہران میں ملکی وزارت خارجہ کو ساتھ لے کر چلنے کا قطعی فقدان تھا۔‘‘

م م / ع ا / روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں