صدر دو عہدے نہیں رکھ سکتا: لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ
12 مئی 2011لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کی طرف سے جمعرات کی دوپہر جاری کیے جانے والے اس فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ صدر پاکستان جتنی جلدی ممکن ہو سکے خود کو سیاسی عہدوں سے الگ کر لیں۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایوانِ صدرکو کسی سیاسی جماعت کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنانا، اس کے تقدس ، وقار اور صدارتی عہدے کی آزاد حیثیت کے منافی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ، جسٹس اعجاز احمد چوہدری کی سربراہی میں قائم کیا گیا یہ فل بنچ جسٹس چوہدری افتخار حسین، جسٹس عمرعطا بندیال اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تھا ۔ لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے تقریباً ڈیڑھ سال تک اس کیس کی سماعت کرنے کے بعد چند ہفتے پہلے اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ صدر آصف علی زرداری ، صدر مملکت کے عہدے کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین کا عہدہ بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ صدر مملکت کے دو عہدے رکھنے کے خلاف معروف قانون دان اے کے ڈوگر ایڈو کیٹ نے درخواست دائر کی تھی ۔ سرکاری وکلا کی طرف سے عدالتی کاروائی کے بائیکاٹ کے بعد معروف وکلا عابد حسن منٹو اور ایس ایم ظفر اس کیس میں عدالتی معاون کے طور پر پیش ہوتے رہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے فوراً بعد ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے درخواست گزار اے کے ڈوگر نے بتایا کہ اس فیصلے میں دو نکات اہم ہیں، ایک یہ کہ صدر کو سیاسی عہدوں سے فوری طور پر الگ ہو جانا چاہئے اور دوسرا یہ کہ ایوانِ صدرکو سیاسی سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔
ان کے بقول پاکستان کی سپریم کورٹ کے گیارہ ججوں پر مشتمل فل بنچ نے اس سے پہلے یہ طے کر دیا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں صدر غیر جانبدار ہوتا ہے اور وہ کسی ایک جماعت کی بجائے وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے اس لئے ان کے بقول صدر کا سیاسی عہدہ رکھنا آئین کے آرٹیکل 41 (1)کی خلاف ورزی ہے ۔ اے کے ڈوگر کے بقول حکومت نے اس کیس میں بہت تاخیری حربے کا استعمال کیا تاہم ان کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آج سے فوری طور پر نافذ العمل ہے ۔ ان کے بقول صدر مملکت کی طرف سے سیاسی عہدہ نہ چھوڑنا عدالتی حکم کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا۔ البتہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے یہ فیصلہ معطل نہ کیے جانے کی صورت میں صدر مملکت اس فیصلے پر عمل در آمد کے پابند ہو نگے۔ ادھر قانونی ماہرین اس فیصلے پر ملے جلے رد ِعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ بیشتر قانونی دانوں نے اس عدالتی فیصلے کی حمایت کی ہے تاہم پیپلز پارٹی کے حامی وکلا اس فیصلے سے اتفاق نہیں کر رہے ہیں۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: کشور مصطفیٰ