صدر ٹرمپ جلد از جلد انتخابی مہم پر لوٹنا چاہتے ہیں
9 اکتوبر 2020
وائٹ ہاؤس نے صدر ٹرمپ کی صحت سے متعلق اب تک مبہم تفصیلات ہی شیئر کی ہیں تاہم ان کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سنیچر 10 اکتوبر سے انتخابی مہم پر دوبارہ واپس ہوسکتے ہیں۔
اشتہار
کورونا وائرس کی تشخیص کے محض ایک ہفتے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مکمل طور پر صحت یاب ہونے کا دعوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اب پھر سے اپنی انتخابی مہم پرواپس لوٹنے اور جلسے جلوس کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جمعرات کے روز ٹرمپ کے ڈاکٹر سیان کونلی نے کہا کہ کووڈ 19 کے لیے ان کی ایک ہفتے تک چلنے والی تھیراپی مکمل ہوگئی ہے اور وہ سنیچر تک عوام سے روابط کا عمل محفوظ طریقے سے دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر کونلی کا کہنا تھا، ''گزشتہ جمعرات کو تشخیص ہونے سے لیکر سنیچر کو دسواں دن ہوگا۔ ٹیم تشخیص کے لیے جن جدید طریقہ کار پر کام کر رہی ہے اس کی بنیاد پر میں اس بات کی توقع کرتا ہوں کہ اس وقت تک عوامی مصروفیات کے لیے صدر کی محفوظ واپسی ہو سکے گی۔''
جمعرات کو ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے فوکس نیوز کو بتایا کہ وہ جمعے کے روز پھر سے کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرایں گے اور ان کی کوشش ہوگی کہ سنیچر کو وہ ایک انتخابی ریلی کر سکیں۔ ''یہ تبھی ممکن ہے جب اس کا وقت پر انتظام ہوسکے۔
صدر ٹرمپ میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد انہیں والٹر ریڈ ملٹری اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ وہ پانچ اکتوبر کو جب سے اسپتال سے واپس آئے ہیں تب سے کوئی عوامی ریلی نہیں کی ہے اور باہر بھی نہیں دیکھے گئے ہیں۔ تاہم ان کے بیان پر مبنی وائٹ ہاؤس سے ویڈیوز ضرور نکلتے رہے ہیں اور فوکس نیوز پر ان کے انٹرویو بھی نشر ہوتے رہے ہیں۔
دس روز کا قرنطینہ مکمل ہوا
گزشتہ پیر سے ہی طبی ٹیم نے صدر ٹرمپ کی صحت سے متعلق میڈیا کو کوئی حاض معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔ امریکا میں محکمہ طب کے اہم ادارہ 'سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن' کی ہدایات کے مطابق اگر کسی شخص میں کورونا وائرس کی علامت پائی جاتی ہوں تو اسے 10 روز تک کے لیے قرنطینہ میں رہنے کو کہا جاتا ہے۔ ٹرمپ میں اس کی علامت کا پہلی بار پتہ یکم اکتوبر کو چلا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے جرمنی کے بارے میں بیانات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کی تعریف بھی کر چکے ہیں اور جرمنی پر تنقید بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے چانسلر میرکل کو ’عظیم‘ بھی کہا ہے اور ان کا یہ دعوی بھی ہے کہ برلن حکومت امریکا کی ’مقروض‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
کبھی ایسا تو کبھی ویسا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015ء میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کے فیصلے کو ایک بہت بڑی غلطی سے تعبیر کیا تھا۔ وہ جرمنی کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں اور کبھی ان حق میں بیان بھی دیتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
’عظیم‘
ٹرمپ نے 2015ء میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جرمنی خاموشی سے رقم جمع کرنے اور دنیا کی ایک عظیم رہنما میرکل کے سائے میں قسمت بنانے میں لگا ہوا ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/M. Schreiber
بہت برا
’’جرمن برے ہوتے ہیں، بہت ہی برے۔ دیکھو یہ امریکا میں لاکھوں گاڑیاں فروخت کرتے ہیں۔ افسوس ناک۔ ہم اس سلسلے کو ختم کریں گے۔‘‘ جرمن جریدے ڈیئر شپیگل کے مطابق ٹرمپ نے یہ بیان مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک سربراہ اجلاس کے دوران دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/E. Vucci
کچھ مشترک بھی
ٹرمپ نے مارچ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، ’’ ٹیلفون سننے کی بات ہے، تو میرے خیال میں جہاں تک اوباما انتظامیہ کا تعلق تو یہ چیز ہم میں مشترک ہے۔‘‘ ان کی اشارہ ان الزامات کی جانب تھا، جو وہ ٹیلیفون سننے کے حوالے سے اوباما انتظامیہ پر عائد کرتے رہے ہیں۔ 2013ء میں قومی سلامتی کے امریکی ادارے کی جانب سے میرکل کے ٹیلیفون گفتگو سننے کے واقعات سامنے آنے کے بعد جرمنی بھر میں شدید و غصہ پایا گیا تھا۔
تصویر: Picture alliance/R. Sachs/CNP
غیر قانونی
’’میرے خیال میں انہوں نے ان تمام غیر قانونی افراد کو پناہ دے کر ایک بہت بڑی غلطی کی ہے۔ ان تمام افراد کو، جن کا تعلق جہاں کہیں سے بھی ہے‘‘۔ ٹرمپ نے یہ بات ایک جرمن اور ایک برطانوی اخبار کو مشترکہ طور پر دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
’مقروض‘ جرمنی
ٹرمپ نے 2017ء میں میرکل سے پہلی مرتبہ ملنے کے بعد کہا تھا، ’’جعلی خبروں سے متعلق آپ نے جو سنا ہے اس سے قطع نظر میری چانسلر انگیلا میرکل سے بہت اچھی ملاقات ہوئی ہے۔ جرمنی کو بڑی رقوم نیٹو کو ادا کرنی ہیں اور طاقت ور اور مہنگا دفاع مہیا کرنے پر برلن حکومت کی جانب سے امریکا کو مزید پیسے ادا کرنے چاہیں۔‘‘
تصویر: Picture alliance/dpa/L. Mirgeler
منہ موڑنا
امریکی صدر نے جرمن حکومت کے داخلی تناؤ کے دوران اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا، ’’جرمن عوام تارکین وطن کے بحران کے تناظر میں، جس نے مخلوط حکومت کو مشکلات کا شکار کیا ہوا ہے، اپنی قیادت کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ جرمنی میں جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں افراد کو داخل کر کے یورپی سطح پر بہت بڑی غلطی کی گئی ہے، جس سے یورپی ثقافت پر بہت تیزی سے تبدیل ہو گئی ہے۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images/L. Marin
7 تصاویر1 | 7
لیکن وائٹ ہاؤس نے اس طرح کی کوئی تفصیلات ابھی تک شیئر نہیں کی ہیں کہ آخر صدر ٹرمپ کی کورونا وائرس سے متعلق جانچ رپورٹ آخری بار نیگیٹیو کب آئی تھی۔ اسی کی بنیاد پر ہی یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس سے متاثر کب ہوئے تھے۔
وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی کا کہنا ہے کہ کم سے 24 گھنٹوں کے وقفے کے بعد متاثرہ شخص کی لیب میں دو بار جانچ ضروری ہیں اور تبھی اس بات کا فیصلہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص وائرس سے آزاد ہے یا پھر اب بھی اس میں وائرس پایا جاتا ہے۔
ٹرمپ ریلی کرنا چاہتے ہیں
فوکس بزنس نیوز سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا انہیں لگتا ہے کہ وہ مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہیں۔ ''میں اچھا محسوس کر رہا ہوں، حقیقت میں اچھا، پوری طرح سے ٹھیک۔ میرے خیال سے میں اتنا بہتر محسوس کر رہا ہوں کہ آج ہی رات کو میں ایک ریلی کرنا پسند کروں گا۔ میں تو کل ہی رات کو کرنا چاہتا تھا۔'' ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ویسے بھی وہ جلسے جلوس میں عوام سے بہت دور کھڑے ہوں گے۔
اس انٹرویو کے دوران صدر ٹرمپ نے آن لائن صدارتی مباحثے کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔ ان کی انتخابی مہم کی ٹیم پہلے ہی جو بائیڈن کے ساتھ مباحثے میں شرکت کے بجائے ریلی کو ترجیح دینے کی بات کہہ چکی ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا، ''ورچؤول مباحثہ ایک مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، اس کی کوئی وجہ نہیں ہے، میں تو پوری طرح ٹھیک ہوں۔'' بعد میں انہوں نے اس مباحثے کو 22 اکتوبر تک موخر کرنے پر اتفاق کیا۔ ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ آخری مباحثہ ووٹنگ سے محض تین دن قبل 29 اکتوبر کو ہونا چاہیے۔
ص ز / ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔