1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدر ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منسوخ کر دیے

8 ستمبر 2019

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منسوخ کر دیے ہیں۔ یہ فیصلہ کابل میں ایک امریکی فوجی سمیت بارہ افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے اس حملے کے بعد کیا گیا، جس کی ذمے داری طالبان نے قبول کر لی تھی۔

تصویر: picture alliance/dpa

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان عسکریت پسندوں کی قیادت کے ساتھ دوحہ میں ہونے والے امریکی مذاکرات کے نتیجے میں امریکا میں کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر ایک خفیہ سربراہی ملاقات بھی کرنے والے تھے۔ امریکی صدر نے اپنے اس فیصلے کا اعلان مقامی وقت کے مطابق واشنگٹن میں ہفتہ سات ستمبر کو رات گئے کیا۔

اس سلسلے میں انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے کئی پیغامات شائع کیے اور کہا کہ وہ آج اتوار آٹھ ستمبر کو امریکا ہی میں افغان صدر اشرف غنی اور طالبان کے رہنماؤں سے علیحدہ علیحدہ لیکن ایک غیر اعلانیہ سمٹ میں ملاقات کرنے ہی والے تھے۔ صدر ٹرمپ نے لکھا کہ انہوں نے طالبان کی قیادت کے ساتھ امریکا کی امن بات چیت منسوخ کرنے کا فیصلہ افغان  دارالحکومت کابل میں کیے جانے والے اس حملے کے بعد کیا، جس میں ایک امریکی فوجی سمیت کل بارہ افراد ہلاک ہوئے تھے اور جس کی ذمے داری طالبان نے قبول کر لی تھی۔

'وہ کس قسم کے لوگ ہوں گے؟‘

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''وہ کس طرح کے لوگ ہوں گے جو مذاکرات کے دوران صرف سودے بازی کی خاطر بظاہر اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے اتنے زیادہ انسانوں کی جانیں لے لیں گے؟‘‘ ساتھ ہی امریکی صدر نے مزید لکھا، ''وہ (طالبان) اگر ان انتہائی اہم مذاکرات کے دوران فائر بندی پر آمادہ نہیں ہو سکتے، اور 12 معصوم انسانوں تک کی جانیں لے سکتے ہیں، تو پھر شاید ان میں اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ ایک بامقصد معاہدے کے لیے کوئی مکالمت کر سکیں۔‘‘

غنی اور طالبان کی قیادت سے ملاقات

افغان طالبان امریکا کے ساتھ اپنے مذاکرات میں اب تک اسی بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ ان کی واشنگٹن کے ساتھ یہ بات چیت کسی تیسرے ملک میں ہی ہونا چاہیے۔ اگر صدر ٹرمپ اس ملاقات کے لیے، جو ان کے بقول آج اتوار کو ہونا تھی، افغان صدر اشرف غنی اور طالبان کی اعلیٰ قیادت کو امریکا بلانے میں کامیاب ہو جاتے، تو یہ واشنگٹن کی اب تک کی خارجہ پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی ہوتی۔ لیکن اب بظاہر ایسا نہیں ہو گا۔

اٹھارہ سالہ جنگ

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ ملاقات ہو جاتی، تو یہ امریکا پر گیارہ ستمبر 2001ء کے ان دہشت گردانہ حملوں کے 18 برس پورے ہونے سے محض دو تین روز قبل ہوتی، جن میں تقریباﹰ تین ہزار انسان مارے گئے تھے۔ ماضی کے افغانستان میں یہ طالبان عسکریت پسند اور ان کی قیادت ہی تھے، جنہوں نے اسامہ بن لادن کے اس دہشت گرد نیٹ ورک کے شدت پسندوں کو ہندوکش کی اس ریاست میں پناہ دی تھی، جنہوں نے امریکا پر نائن الیون کے دنیا کو بدل دینے والے حملے کیے تھے۔

صدر ٹرمپ کے کل رات گئے کیے جانے والے اعلان سے قبل امریکا افغان طالبان کے ساتھ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن بات چیت کے چھ دور مکمل کر چکا تھا اور اس مکالمت کے بعد بہت حد تک یہ امید بھی پیدا ہو گئی تھی کہ افغانستان کی اس 18 سالہ جنگ کا کسی امن معاہدے کی صورت میں اختتام ممکن ہے جو اب امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن چکی ہے۔

م م / ع س / ڈی پی اے، روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں