صدر ٹرمپ کا شمالی کوریا سے براہ راست رابطوں کا انکشاف
18 اپریل 2018
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انکشاف کیا ہے کہ واشنگٹن حکومت کمیونسٹ کوریا کے ساتھ براہ راست رابطوں میں ہے اور انہوں نے کوریائی جنگ کے باقاعدہ خاتمے کے لیے حریف ملک شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کی منظوری بھی دے دی ہے۔
اشتہار
امریکی ریاست فلوریڈا میں پام بیچ سے بدھ اٹھارہ اپریل کی صبح ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر نے نہ صرف یہ تصدیق کر دی کہ واشنگٹن اور پیونگ یانگ کے مابین براہ راست رابطے قائم ہو چکے ہیں بلکہ انہوں نے دونوں حریف ریاستوں کے مابین مکالمت کے آغاز کی منظوری بھی دے دی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ اس امریکی شمالی کوریائی بات چیت کا مقصد جزیرہ نما کوریا کی اس جنگ کے باقاعدہ خاتمے کو ممکن بنانا ہے، جو عشروں پہلے ایک فائر بندی کی صورت میں رک تو گئی تھی، لیکن تکنیکی طور پر آج تک ختم نہیں ہوئی۔ ماہرین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے اس موقف کے یہ دونوں ہی پہلو سیاسی اور سفارتی دونوں حوالوں سے بہت بڑے انکشافات ہیں۔
صدر ٹرمپ نے یہ بات پام بیچ فلوریڈا میں اپنی تفریحی رہائش گاہ پر جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد کہی۔ امریکی صدر نے کہا، ’’جزیرہ نما کوریا پر ایک بڑے عالمی مسئلے کے حل کا ایک سنہری موقع موجود ہے۔‘‘ ٹرمپ کے اس بیان سے یہ امیدیں بھی بڑھی ہیں کہ آئندہ دنوں اور ہفتوں میں ہونے والی چند اہم سربراہی ملاقاتوں میں اس حوالے سے کوئی بڑی پیش رفت سامنے آ سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ ان کی تائید و حمایت سے اگلے دس روز کے اندر اندر دونوں کوریائی ریاستوں کے سربراہان کی ایک ایسی ملاقات عمل میں آ سکتی ہے، جس میں 1950ء سے لے کر 1953ء تک لڑی جانے والی کوریائی جنگ کے باقاعدہ خاتمے کے لیے ایک امن معاہدے پر بات چیت کی جا سکے گی۔
ٹرمپ نے شینزو آبے کی موجودگی میں کہا، ’’لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں کہ کوریائی جنگ ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ یہ جنگ آج بھی جاری ہے۔ اس وقت بھی۔ اور اس آئندہ ملاقات میں اسی جنگ کے خاتمے اور ایک امن معاہدہ طے کرنے پر بات چیت کی جائے گی۔‘‘
ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کارٹونسٹوں کے ’پسندیدہ شکار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کِم جونگ اُن ایک دوسرے کو جوہری حملوں کی دھمکیاں دیتے ہوئے خوف اور دہشت پھیلا رہے ہیں لیکن کارٹونسٹ ان دونوں شخصیات کے مضحکہ خیز پہلو سامنے لا رہے ہیں۔
تصویر: DW/Gado
’میرا ایٹمی بٹن تم سے بھی بڑا ہے‘
بالکل بچوں کی طرح لڑتے ہوئے شمالی کوریا کے رہنما نے کہا کہ ایٹمی ہتھیار چلانے والا بٹن ان کی میز پر لگا ہوا ہے۔ جواب میں ٹرمپ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے پاس بھی ایک ایٹمی بٹن ہے اور وہ تمہارے بٹن سے بڑا ہے‘۔
تصویر: Harm Bengen
ہیئر اسٹائل کی لڑائی
دونوں رہنماؤں کے ہیئر اسٹائل منفرد ہیں اور اگر ایک راکٹ پر سنہری اور دوسرے پر سیاہ بال لگائے جائیں تو کسی کو بھی یہ جاننے میں زیادہ دقت نہیں ہو گی کہ ان دونوں راکٹوں سے مراد کون سی شخصیات ہیں۔
تصویر: DW/S. Elkin
اگر ملاقات ہو
اگر دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہو تو سب سے پہلے یہ ایک دوسرے سے یہی پوچھیں گے، ’’تمہارا دماغ تو صحیح کام کر رہا ہے نا؟ تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو؟‘‘
تصویر: A. B. Aminu
ماحول کو بدبودار بناتے ہوئے
اس کارٹونسٹ کی نظر میں یہ دونوں رہنما کسی اسکول کے ان لڑکوں جیسے ہیں، جو ماحول کو بدبودار کرنے کے لیے ایک دوسرے سے شرط لگا لیتے ہیں۔
تصویر: tooonpool.com/Marian Kamensky
4 تصاویر1 | 4
اس بارے میں وائٹ ہاؤس کے ذرائع نے کہا کہ کمیونسٹ کوریا کے ساتھ براہ راست رابطوں کے سلسلے میں ابھی تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کے مابین کوئی براہ راست گفتگو تو نہیں ہوئی لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ یہ دونوں رہنما ’انتہائی اعلیٰ سطح پر‘ ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں میں ہے، تاکہ اُن اور ٹرمپ کے مابین متوقع ایک تاریخی ملاقات کی تیاریاں کی جا سکیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق کچھ عرصہ پہلے تک امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی سربراہی کرنے والے مائیک پومپیو نے اپریل کے پہلے ویک اینڈ پر شمالی کوریا کے اپنے ایک خفیہ دورے کے دوران کم جونگ اُن سے ملاقات کی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اسی ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے پومپیو کو نیا امریکی وزیر خارجہ نامزد کر دیا تھا۔ پومپیو کے اس مبینہ دورہ شمالی کوریا کے بارے میں سے آئی اے اور وائٹ ہاؤس ابھی تک قطعی خاموش ہیں۔
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
جزیرہ نما کوریا پر جنگ تین سالوں تک جاری رہی۔ اس دوران اقوام متحدہ اور امریکا نے جنوبی کوریا کا جب کہ چین اور سابقہ سوویت یونین نے شمالی کوریا کا ساتھ دیا۔ جنگ کے اختتام پر تقریباً پچاس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: AP
تین سالہ جنگ کا آغاز
شمالی کوریا کی فوجیں 25 جون 1950ء کو جنوبی کوریا میں داخل ہو گئی تھیں۔ جنگ شروع ہونے کے چند دنوں بعد ہی جنوبی کوریا کے تقریبًا تمام حصے پر کمیونسٹ کوریا کی فوجیں قابض ہو چکی تھیں۔ تین سال جاری رہنے والی اس جنگ میں تقریباً 4.5 ملین افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
جنگ سے پہلے کی تاریخ
جزیرہ نما کوریا 1910ء سے لے کر 1945ء تک جاپان کے قبضے میں رہا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد سے منقسم چلا آ رہا ہے۔ شمال کا حصہ سوویت کنٹرول میں چلا گیا جب کہ جنوبی حصے پر امریکی دستے قابض ہو گئے۔ اگست 1948ء میں جنوبی حصے میں ری پبلک کوریا کے قیام کا اعلان کر دیا گیا جب کہ اس کے رد عمل میں جنرل کم ال سونگ نے نو ستمبر کو عوامی جمہوریہ کوریاکی بنیاد رکھ دی۔
تصویر: picture-alliance / akg-images
اقوام متحدہ کا کردار
شمالی کوریا کی جانب سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے بعد امریکا اور اقوام متحدہ نے فوری طور پر جنوبی کوریا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بیس ممالک کے چالیس ہزار فوجیوں کو جنوبی کوریا روانہ کیا گیا، ان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 36 ہزار تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
آپریشن ’ Chromite‘
15ستمبر 1950ء کو امریکی جنرل ڈگلس مک کارتھر کی قیادت میں اتحادی دستے ساحلی علاقے ’ Incheon ‘ پہنچے اور اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد سیول دوبارہ سے جنوبی کوریا کے زیر قبضہ آ چکا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
ماؤ کے دستوں کی مدد
1950ء کے اکتوبر میں چین کی جانب سے اس تنازعے میں باقاعدہ مداخلت کی گئی۔پہلے چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں اور بعد ازاں رضاکاروں کا ایک بہت بڑا دستہ شمالی کوریا کی مدد کو پہنچا۔پانچ دسمبر کو پیونگ یانگ اتحادی فوجوں سے آزاد کرا لیا گیا۔
تصویر: Claude de Chabalier/AFP/Getty Images
جوابی کارروائی
جنوری 1951ء میں چین اور شمالی کوریا نے مل کر ایک بڑی پیش قدمی شروع کی۔ اس میں چار لاکھ چینی اور شمالی کوریا کے ایک لاکھ فوجی شامل تھے۔ اس دوران شمالی کوریا کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ امریکا نے چین پر جوہری بم سے حملہ کرنے کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تھکاوٹ کا شکار
1951 ءکے آخر میں جنگ اسی مقام پر پہنچ چکی تھی، جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی یعنی فریقین جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں میں اپنی اپنی سرحدوں میں موجود تھے۔ جولائی 1951ء میں فائر بندی مذاکرات شروع ہونے کے باوجود 1953ء کے موسم سرما تک دونوں وقفے وقفے سے ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہتے تھے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
دو نظاموں کی جنگ
کوریائی جنگ کو سرد جنگ کے دوران مشرق اور مغرب کے درمیان پہلی پراکسی وار کہلاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے دستوں میں امریکی فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی جب کہ دوسری جانب شمالی کوریا کی پشت پناہی کے لیے چین اور روس کے لاکھوں سپاہی موجود تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
بے پناہ تباہی
اس جنگ میں امریکی افواج نے ساڑھے چار لاکھ ٹن بارود استعمال کیا۔ بمباری کا یہ عالم تھا کہ1951ء کے اواخر میں امریکی پائلٹوں نے یہ شکایات کی تھیں کہ شمالی کوریا میں اب کوئی ایسی چیز نہیں بچی ہے، جسے وہ ہدف بنا سکیں۔ شمالی کوریا کے تقریباً تمام بڑے شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
لاکھوں افراد ہلاک
1953ء میں جب اتحادی دستوں کا انخلاء شروع ہوا تو اس وقت تک کئی لاکھ افراد موت کے منہ میں جا چکے تھے۔ اس دوران اندازہ لگایا جاتا ہے شمالی اور جنوبی کوریا کے ملا کر پانچ لاکھ فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ چار لاکھ چینی فوجی اور اس جنگ کے دوران مرنے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
جنگی قیدیوں کا تبادلہ
1953ء میں اپریل کے وسط اور مئی کے آغاز میں فریقین کے مابین قیدیوں کا پہلی مرتبہ تبادلہ ہوا اور اسی سال کے اختتام تک تبادلے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا کے پچہتر ہزار اور تقریباً سات ہزار چینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ دوسری جانب سے ساڑھے تیرہ ہزار قیدی رہا کیے گئے، جن میں تقریباً آٹھ ہزار جنوبی کوریا کے تھے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
فائربندی سمجھوتہ
دس جولائی1951ء کو جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع ہوئے اور بالآخر دو سال بعد 27 جولائی کو معاملات طے پا گئے۔ تاہم اس سمجھوتے پر دستخط نہیں نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک ابھی تک حالت جنگ میں ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
ساٹھ سال بعد بھی دشمن
اس جنگ کو ختم ہوئے ساٹھ برس گزر چکے ہیں لیکن ابھی بھی یہ دونوں ممالک کشیدگی کی حالت میں ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیانی سرحد کی نگرانی انتہائی سخت ہے۔ ابھی بھی سرحد کے اطراف دونوں ملکوں کے سپاہی چوکنا کھڑے ہوتے ہیں۔
تصویر: AP
13 تصاویر1 | 13
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ صدر ٹرمپ کے بقول ان کی شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ ملاقات کے لیے قریب پانچ ممکنہ مقامات میں سے کسی ایک کے انتخاب پر غور کیا جا رہا ہے اور اگر حالات آئندہ بھی سازگار رہے تو یہ ملاقات ممکنہ طور پر ’جون کے اوائل‘ میں ہو گی۔
امریکی حکام کے بقول ابھی تک اس ملاقات کی جگہ کا تعین نہیں کیا گیا لیکن یہ تاریخی سربراہی ملاقات چین، شمالی کوریا، جنوبی کوریا یا ممکنہ طور پر پان مون جوم میں سے کسی بھی جگہ پر ہو سکتی ہے۔ پان مون جوم دونوں کوریائی ریاستوں کے مابین وہ خطہ ہے، جسے عشروں قبل ایک غیر فوجی علاقہ قرار دے دیا گیا تھا۔
م م / ا ب ا / اے ایف پی
ایشیا 2017 کے آئینے میں
چینی صدر کی جانب سے طاقت کا اظہار، شمالی کوریا کے راکٹ تجربے اور روہنگیا بحران جیسے معاملات رواں برس ایشیا کے منظرنامے پر چھائے رہے۔
پیسیفک خطے کے آزاد تجارتی معاہدے سے امریکا کا اخراج
عہدہ صدارت سنبھالنے کے ٹھیک تین دن بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا اور ایشیا پیسیفک خطے کے ممالک کے درمیان طے پانے والے آزاد تجارتی معاہدے (TPP) سے امریکا کے اخراج کا اعلان کر دیا۔ سن 2016ء میں طے پانے والے اس معاہدے میں 12 ممالک شامل تھے۔
تصویر: picture alliance/Newscom/R. Sachs
’’بوڑھے شخص‘‘ اور ’’چھوٹے سے راکٹ آدمی‘‘ کے درمیان الفاظ کی جنگ
ٹرمپ کی جانب سے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد فروری کے وسط میں شمالی کوریا نے رواں برس کا پہلا میزائل تجربہ کیا۔ پھر یکے بعد دیگرے میزائل تجربے کیے جاتے رہے۔ شمالی کوریا اس سال کے دوران اپنا چھٹا جوہری تجربہ بھی کیا۔ ان تجربات کے تناظر میں صدر ٹرمپ اور کم جونگ اُن کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Ahn Young-joon
کوالالپمور میں پراسرار قتل
ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کے ہوائی اڈے پر کم جونگ اُن کے کزن کم جونگ نم زہریلی گیس کے حملے میں مارے گئے۔ انڈونیشیا اور ویت نام سے تعلق رکھنے والی دو خواتین اس جرم میں زیرحراست ہیں۔ ان دونوں خواتین پر الزام ہے کہ انہوں نے اعصاب پر حملہ آور ہونے والی گیس کا حامل کپڑا کم جونگ نم کے چہرے پر مارا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Kambayashi
بدعنوانی پر جنوبی کوریا کی صدر برطرف
جنوبی کوریا کی صدر پارک گُن ہے کو بدعنوانی کے ایک اسکینڈل پر رواں برس فروری میں مواخذے کا سامنا کرنا پڑا۔ مارچ میں ان پر کرپشن کے الزامات کے تحت مقدمے کا آغاز ہوا۔ اس کے علاوہ ان پر ریاست کے راز افشا کرنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے الزامات بھی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Heon-Kyun
جنوبی کوریا، ایک نیا سیاسی سفر
مئی میں ہونے والے انتخابات میں سوشل لبرل رہنما مون جائے اِن کو قدامت پسندوں کے مقابلے میں زبردست کامیابی ملی۔ پارک گُن ہے کی برطرفی کے بعد سوشل لبرل رہنما مون جائے اِن نے منصب صدارت سنبھالا۔
تصویر: Reuters/Kim Hong-Ji
روحانی دوبارہ منتخب
ایرانی صدر حسن روحانی رواں برس مئی میں ہونے والے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر کامیاب ہو گئے۔ انہیں 57.1 فیصد ووٹ پڑے۔ اصلاحات پسند روحانی ہی کی صدارت میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایک طویل عرصے سے موجود جوہری تنازعہ ایک معاہدے کے تحت اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔
تصویر: FARARU
کابل میں خون ریزی
31 مئی کو کابل میں جرمن سفارت خانے کے قریب ٹرک بم حملہ کیا گیا۔ اس واقعے میں کم ازکم ڈیڑھ سو افراد ہلاک جب کہ ساڑھے چار سو سے زائد زخمی ہوئے۔ جرمن خفیہ اداروں نے افغان حکام کو اس حملے سے کئی ماہ قبل ہی خبردار کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
ایک پراسرار موت
شمالی کوریا میں ڈیڑھ برس قید رہنے والا امریکی طالب علم اوٹو وارمبیئر جون میں امریکا واپس پہنچا۔ وہ بے ہوش تھا اور وطن واپسی کے کچھ ہی دیر بعد فوت ہو گیا۔ اس کے ساتھ شمالی کوریا میں کیا ہوا، یہ کوئی نہیں جانتا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے تاہم کہا کہ اس پر تشدد کیا گیا تھا۔
جولائی میں 71 سالہ رام ناتھ کووِند کو بھارت کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ کووِند کا تعلق ’دلت برادری‘ سے ہے۔ یہ برادری بھارت میں متعدد طرز کے مسائل اور معاشرتی تفریق کا شکار سمجھی جاتی ہے۔ کووند کو صدر منتخب کرنا، علامتی طور پر اس برادری کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
’چینی ریاست کا سب سے بڑا دشمن‘ انتقال کر گیا
13 جولائی کو انسانی حقوق اور جمہوریت کے علم بردار نوبل امن انعام یافتہ چینی رہنما لیو شیاؤبو 61 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ وہ جگر کے سرطان میں مبتلا تھا۔ ایک طویل عرصے تک جیل میں رہنے والے لیو شیاؤبو کو انتقال سے دو ہفتے قبل طبی وجوہات پر رہا کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
پاکستانی وزیراعظم نوازشریف نااہل
پاکستانی سپریم کورٹ نے بدعنوانی کے ایک مقدمے میں ملکی وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔ اس طرح وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے اور پارلیمان کی رکنیت سے محروم ہو گئے۔ اس سے یہ روایت بھی قائم رہی کہ پاکستان کی ستر برس کی تاریخ میں کوئی ایک بھی وزیراعظم اپنے عہدے کی مدت مکمل نہیں کر پایا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
روہنگیا کا بحران
رواں برس اگست کے آخر میں روہنگیا عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد میانمار کی فوج نے راکھین ریاست میں عسکری آپریشن کا آغاز کیے، جس کے بعد چھ لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچے جب کہ اس دوراں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ راکھین میں روہنگیا کےخلاف کارروائیوں کو ’نسل کشی‘ قرار دیتی ہے۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
شمالی کوریا کا چھٹا جوہری تجربہ
تین ستمبر کو شمالی کوریا نے اپنا چھٹا جوہری تجربہ کیا۔ یہ اب تک جانچے گئے جوہری ہتھیاروں میں سب سے طاقت ور تھا۔ شمالی کوریا کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ ہائیڈروجن بم کا دھماکا تھا، جسے بین البراعظمی میزائلوں پر بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/KCNA
چین کا طاقت ور ترین صدر
اکتوبر میں بینجنگ میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس منعقد ہوئی، جس میں صدر شی جن پنگ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ اس کانگریس کو صدر شی کی جانب سے طاقت کے زبردست اظہار سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/W.Zhao
مراوی کی لڑائی
پانچ ماہ تک جنوبی فلپائنی شہر مراوی میں اسلامک اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی اکتوبر کی 23 تاریخ کو اختتام پذیر ہوئی۔ اس شہر پر حکومتی قبضے کے لیے کی جانے والی عسکری کارروائی کے نتیجے میں مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔