صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکا کی فضائی، زمینی اور بحری افواج کی طرح خلا میں بھی امریکی فوج ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق ’خلا میں برتری‘ امریکا کی ضرورت ہے اور واشنگٹن کی مسلح افواج کا ایک کام ’خلا میں دفاع‘ بھی ہونا چاہیے۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ملکی محکمہ دفاع یعنی پینٹاگون کو یہ حکم دے دیا ہے کہ وہ واشنگٹن کی طرف سے ایک ’خلائی فوج‘ کی تعیناتی کی تیاریاں شروع کر دے۔ انہوں نے پیر اٹھارہ جون کی شام واشنگٹن میں کہا، ’’ہماری ایک ایئر فورس بھی ہے اور ہماری ایک اسپیس فورس (خلائی فوج) بھی ہو گی۔ یہ دو علیحدہ علیحدہ عسکری طاقتیں ہوں گی لیکن برابر اہمیت کی حامل۔‘‘
امریکی صدر نے کہا کہ واشنگٹن یہ نہیں چاہے گا کہ اس شعبے میں روس یا چین امریکا سے آگے نکل جائیں۔ ٹرمپ کے الفاظ میں، ’’اگر بات یہ ہو کہ امریکا کا ہر حال میں اور ہر جگہ پر دفاع کیا جائے، تو صرف یہی بات کافی نہیں ہو گی کہ امریکا خلا میں موجود ہو۔ ہمیں اس کے لیے لازمی طور پر خلا میں امریکی برتری بھی درکار ہو گی۔‘‘
دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکا نے خلا سے متعلق ایک ایسے معاہدے پر بھی دستخط کر رکھے ہیں، جس کے مطابق خلا میں وسیع پیمانے پر تباہی کا باعث بننے والے ہتھیاروں کی موجودگی یا تنصیب ممنوع ہے۔ اس کے علاوہ مختلف خلائی اجسام، مثلاﹰ چاند وغیرہ کو صرف پرامن مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
زمین پر ہی مریخ کے دورے
مریخ پر جانے کے لیے پرعزم سائنسدانوں کا خواب پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن ان کی پہلی منزل زمین ہی ہو گی۔
تصویر: R. Dückerhoff
شاندار نظارہ
ہوائی کے جزیرے پر آتش فشاں ماؤنا لوآ کی سنگلاخ چٹانوں پر مریخ کا ایک ’مصنوعی تجرباتی سفر‘ کرنے کی تیاری کی گئی ہے۔ اٹھائیس اگست سے شروع ہونے والے اس غیر حقیقی سفر میں ایک سال کے دوران چھ مختلف افراد تجربات کریں گے۔ یہ سائنسدان ایک ایسے گنبد نما خیمے میں رہیں گے، جس کے ارد گرد پتھروں کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔
تصویر: R. Dückerhoff
مریخ پر قیام
اس مصنوعی مشن HI-SEAS 4 میں جرمن خاتون سائنسدان کرسٹیانے ہائینِکے بھی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ امریکی خلائی ادارے ناسا کی مالی معاونت سے تیار کردہ اس مشن میں متعدد خلا باز مختلف قسم کی سرگرمیاں مکمل کریں گے۔ اس مشن کا مقصد یہ جاننا ہے کہ مستقبل میں مریخ پر جانے والے خلا بازوں کے مشترکہ مسائل کی وجہ سے ان کا مشن کس حد تک متاثر ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
آرام دہ رہائش
پانچ امریکی اور یورپی سائنسدانوں کے ہمراہ جرمن سائنسدان کرسٹیانے ہائینِکے بھی اس خیمے میں وقت گزاریں گی۔ اس آرام دہ رہائش گاہ کا قطر گیارہ میٹر ہے۔ ہفتے میں دو مرتبہ یہ سائنسدان اپنا خلائی لباس پہن کر مصنوعی حالات میں اپنے خیمے سے باہر نکل کر تجربات کریں گے۔ باقی تمام وقت یہ اسی خیمے میں ہی گزاریں گے۔ یہ باہر کی دنیا سے صرف ریکارڈ شدہ پیغامات اور ای میل کے ذریعے ہی رابطہ کر سکیں گے۔
تصویر: R. Dückerhoff
سرخ سیارہ، بے جان سیارہ
ہوائی یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق آتش فشاں ماؤنا لوآ مریخ کے اس خیالی مشن کے لیے ایک بہترین مقام ہے۔ ان دونوں مقامات پر نباتات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جنگلی حیات بھی موجود نہیں اور آپ کہیں پانی بھی نہیں دیکھ سکتے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
خطرناک سفر
حقیقی مشن کے دوران سرخ سیارے پر پہنچنے کے لیے ہی آٹھ ماہ درکار ہوں گے۔ سائنسدان ایسے کسی مشن سے پہلے بھرپور تیاری کے علاوہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ یہ طویل سفر خلا بازوں پر کس طرح کے ممکنہ اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ خلا باز تنہائی کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ کوئی باہمی تنازعہ پیدا ہوا تو کیا کریں گے؟ سائنسدانوں کو تحفظات کا سامنا ہے کہ اس طویل مشن سے خلا بازوں میں ڈپریشن اور سستی بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: imago/United Archives
مریخ 500
’مارس 500‘ نامی ایک اسٹڈی ماسکو میں کی گئی تھی۔ 2010ء اور 2011ء کے دوران کیے گئے اس مطالعے میں بھی مریخ کا ایک مصنوعی مشن مکمل کیا گیا تھا۔ 520 دنوں کے اس طویل مشن میں مریخ سے واپسی کی تصوراتی پرواز بھی شامل تھی۔ خلا بازوں کی تنہائی کے حوالے سے یہ طویل ترین مطالعہ تھا۔ نتائج کے مطابق چند خلا باز مصنوعی حالات کی وجہ سے کچھ ڈپریشن کا شکار ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ESA
اونچے گلیشیئر پر
گلیشیئر پر مصنوعی تجرباتی مریخ مشن Amadee-15 کے دوران نتائج کچھ مختلف رہے۔ اس مشن کے دوران خلا بازوں نے آسٹریا میں ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں انتہائی اونچائی پر واقع برفانی تودوں میں وقت گزارا۔ دو ہفتے طویل اس مصنوعی مشن کو موسم سرما میں مکمل کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Röder
صحرا میں
خلائی امور کے حوالے سے آگاہی کے منصوبے چلانے والی ’مارس سوسائٹی‘ نامی غیر سرکاری تنظیم نے تجربات کے لیے تین سینٹرز بنائے ہیں۔ ان میں سے ایک صحرائی تحقیقی مرکز امریکا کی ریاست یُوٹاہ کے صحرائی علاقوں میں بھی بنایا گیا ہے۔ ایسا ہی ایک چوتھا سینٹر آسٹریلیا کے شمالی ایڈیلڈ علاقے میں قائم کرنے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Frey
دنیا کا سب سے الگ تھلگ علاقہ
مریخ کو بے جان، سرد اور انتہائی الگ تھلگ سیارہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہی خصوصیات انٹارکٹیکا کی بھی ہیں۔ اسی لیے مریخ کے سفر کی تیاریوں کے سلسلے میں اس براعظم پر بھی ایک سینٹر بنایا گیا ہے۔ وہاں زندگی انتہائی مشکل ہے، بالخصوص تاریخ موسم سرما کے دوران۔ سائنسدان وہاں قائم تجربہ گاہ میں خلا بازوں پر تنہائی کے اثرات کے علاوہ نفسیاتی دباؤ کی کیفیت اور نیند کے اوقات میں خلل کا معائنہ بھی کرتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے بغیر کوئی انسان نہ تو مریخ پر رہ سکتا ہے اور نہ ہی پانی میں۔ اسی لیے سائنسدانوں نے سمندر کی گہرائیوں میں بھی تجربہ گاہیں قائم کی ہیں، جہاں نہ روشنی ہے اور نہ ہی ہوا۔ ناسا نے فلوریڈا میں کی لارگو نامی جزیرے سے منسلک پانیوں میں 62 فٹ کی گہرائی میں ایک تجرباتی اسٹیشن قائم کیا ہے۔ وہاں تین ہفتوں کے لیے مختلف افراد کو بھیجا جاتا ہے اور ان پر مصنوعی ماحول کا اثر جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA
ہر شے کا تجربہ ضروری
مریخ کے سفر پر تجربات کے علاوہ محققین یہ جاننے کی کوشش میں بھی ہیں کہ اس سرخ سیارے پر قیام کے دوران انسانوں پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جرمن ایئر سپیس سینٹر میں Envihab نامی ایک ایسی طبی تجربہ گاہ بھی بنائی گئی ہے جہاں یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی دوسرے سیارے کا ماحول انسان پر کیا کیا اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/F. Schmidt
خوراک کا انتظام
مریخ پر کاشت کاری ممکن نہیں ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان اس بے جان سیارے پر طویل قیام کرتے ہیں تو وہ کیا کھائیں گے؟ Envihab میں سرگرم سائنسدان اپنے تجربات میں یہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ وہ ایسا کون سا پودا ہے، جو گلاس کے مرتبان میں نشو ونما پا سکتا ہے، تاکہ مریخ پر قیام کرنے والوں کو تازہ خوراک فراہم ہو سکے۔
تصویر: DW/F.Schmidt
مریخ پر جانے کی بے قراری
ترقی یافتہ ممالک مریخ مشن کو عملی جامہ پہننانے کے حوالے سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ شاید 2030ء یا 2035ء تک مریخ پر جانا ممکن ہو سکتا ہے۔ تاہم فی الحال انسانوں کو اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے زمین پر ہی تجربات جاری رکھنا ہوں گے۔
تصویر: Reuters/S. Audette
13 تصاویر1 | 13
چاند اور مریخ کے لیے مشن
واشنگٹن میں اس بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اپنے اس ارادے کا بھی پرزور اعادہ کیا کہ امریکا مریخ کی طرف اپنا ایک مشن بھیجنا چاہتا ہے اور اس کے علاوہ امریکی خلاباز ایک بار پھر چاند کی طرف بھی سفر کریں گے۔ اس کے لیے امریکی خلائی ادارے ناسا کی طرف سے تیاریوں سے متعلق ایک اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔ آخری مرتبہ امریکی خلاباز زمین کے چاند کی سطح پر 1972ء میں اترے تھے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ خلا میں کوئی فوج بھیجنے یا ایسی کسی فوج کی خلا میں تعیناتی کی سوچ نئی نہیں ہے۔ لیکن آیا ایسی کوئی فوج واقعی خلا میں تعینات بھی کی جا سکے گی، اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خیال بس بہت سی دور دراز کہکشاؤں کی طرح ہی کا ہے۔
ابھی تک امریکی فضائیہ ہی واشنگٹن کے خلا اور خلائی سفر سے متعلق زیادہ تر منصوبوں کا ذمے دار ادارہ ہے۔ اٹھارہ جون کو صدر ٹرمپ کے جاری کردہ حکم کی جو تفصیلات ابھی تک منظر عام پر آئی ہیں، ان میں یہ بھی شامل ہے کہ امریکا مستقبل میں خلا سے زیادہ تر خلائی کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے کام میں بھی قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
اس کے علاوہ واشنگٹن کی یہ خواہش بھی ہے کہ خلا میں مختلف ممالک کی طرف سے بھیجے جانے والے مشنوں کے باعث بہت زیادہ ہوتی جا رہی آمد و رفت کی تنظیم اور اسے کنٹرول کرنے کا زیادہ تر کام بھی امریکا ہی کو کرنا چاہیے۔
م م / ا ا / ڈی پی اے
زمین پر قدرتی آفات کے مناظر خلا سے کیسے نظر آتے ہیں؟
سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر میں ہماری زمین کیسی معلوم ہوتی ہے، آئیے دیکھتے ہیں سیٹلائٹ سے موصول کردہ قدرتی آفات کی کچھ انتہائی متاثر کن تصویریں۔
تصویر: NASA
جب عفریت جاگ اٹھتا ہے
آتش فشاں بھلے کتنے عرصہ ہی خاموش رہیں، لیکن جب وہ جاگتے ہیں تو تباہی پھیلا دیتے ہیں۔ روس کے کیُوریئل جزائر میں واقع Sarychev نامی آتش فشاں سن 2009 میں پھٹ پڑا تھا۔ اس وقت انٹرنیشنل سپیس اسٹیشن نے اس کی چند تصاویر اتار لی تھیں۔ اس طرح کے امیجز قدرتی مظاہر کو سمجھنے اور تحقیق میں انتہائی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
تصویر: NASA
بولیویا کی جھیل کا پانی اڑتا ہوا
یورپی سپیس ایجنسی کا سیٹلائٹ Proba-V زمین پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ امیجز (بائیں سے دائیں) اپریل 2014، جولائی 2015 اور جنوری 2016 میں لیے گئے تھے۔ ان تصاویر میں بولیویا کی مشہور Poopo جھیل میں پانی کی مقدار کم ہونے کے بارے میں درست اندازہ ہوتا ہے۔ اس جھیل کے پانی کا بخارات بن کر اڑ جانے کی وجہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: ESA/Belspo
آگ سے مت کھیلو!
ہر برس دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں بھڑکنے والی جنگلاتی آگ سے نہ صرف بڑے پیمانے پر تباہی پھیلتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں حیاتیاتی تنوع بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس آتشزدگی کی بڑی وجہ انسانوں کی غلطی کو قرار دیا جاتا ہے۔ ستمبر 2015 میں انڈونیشیا میں بورنیو اور سماٹرا کے جزائر میں بھڑکنے والی آگ نے بھی شدید تباہی مچائی۔ اس تصویر میں آگ کا دھواں فضا میں اٹھتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: NASA/J. Schmaltz
جب جرمن بچے بات نہ سنیں تو؟
جرمنی میں بچوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنا کھانا اچھے طریقے سے نہیں کھائیں گے تو نہ رکنے والی بارش شروع ہو جائے گی۔ سن 2013 میں جرمنی میں خوب بارش ہوئی، اتنی بارش ہوئی کہ وسطی یورپ کے اہم دریاؤں میں طغیانی آ گئی اور نتیجہ تھا سیلاب۔ اس تصویر میں ایلبے دریا میں سیلاب کا منظر دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: NASA/J. Allen
سمندری طوفان جوان ہوتے ہوئے
طاقت ور سمندری طوفان کے نتیجے میں چلنے والی تیز ہوائیں ناقابل تلافی نقصان کی حامل ہو سکتی ہیں۔ ایسے سمندری طوفانوں کی نگرانی کے لیے سٹیلایٹ امیجز انتہائی اہم قرار دیے جاتے ہیں۔ ان سے طوفان کے راستے میں آنے والے علاقوں کے موسم پر پیدا ہونے والے اثرات مثلاً بارش یا جھکڑوں کی رفتار وغیرہ کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ نومبر 2015ء میں میکسیکو کے قریب آنے والے ایک خطرناک طوفان کی تصویر۔
تصویر: NASA/J. Schmaltz
برف پگھلتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟
سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہی بھی ہوتی ہے جبکہ ان کے تجزیات سے مستقبل کا لائحہ عمل بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ سائنسدان انہی امیجز سے برف پگھلنے کے عمل کی بھی نگرانی کرتے ہیں۔ انہی تصاویر سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر کے بڑے بڑے برفانی تودے کس طرح پگھل رہے ہیں۔ یہ سیٹلائٹ تصویر ارجنٹائن کے Upsala گلیشیئر کی ہے۔
تصویر: NASA
گردوغبار کا طوفان
گردوغبار کے طوفان عمومی طور پر دوردراز کے صحرائی علاقوں میں آتے ہیں۔ تاہم ستمبر 2015 میں ایک سیٹلائٹ نے مشرق وسطیٰ کے رہائشی علاقوں میں آنے والے ایک طوفان کا کامیاب تجزیہ کیا۔ یہ انکشافات اور ان پر تحقیق پیش گوئی کے عمل کا بہتر بنانے میں مزید موثر ثابت ہوں گے۔
تصویر: NASA/J. Schmaltz
’ننگا پہاڑ‘
امریکی خلائی ادارے ناسا نے کیلی فورنیا میں شاستا نامی پہاڑ بر برف کی مقدار کم ہونے کے باعث اُسے ’ننگا‘ قرار دے دیا ہے۔ یہ پہاڑ علاقائی سطح پر پانی کے حصول کا ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ اس پہاڑ پر برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ کوئی شک نہیں اگر پانی نہیں ہو گا تو خشک سالی ہو گی۔