صدر ٹرمپ کی انتخابی ریلی کورونا کے کیسز میں اضافے کا سبب
9 جولائی 2020
امریکی ریاست اوکلاہومامیں اچانک کورونا وائرس کے کیسز میں تیزی درج کی گئی ہے اور مقامی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے حال ہی میں جو انتخابی جلسہ کیا تھا، غالباً اسی کی وجہ سے یہ اضافہ ہو رہا ہے۔
اشتہار
ایک ایسے وقت جب امریکا میں پہلی بار ایک دن میں کورونا وائرس کے ریکارڈ کیسز کا پتہ چلا ہے، محکمہ صحت کے ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ اس اضافے کی ممکنہ وجہ شہر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا گزشتہ ماہ کا انتخابی جلسہ اور اس سے متعلق دوسرے پروگرام ہوسکتے ہیں جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی۔ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ ریاست اوکلاہوما کے شہر ٹلسا میں ایک بڑی انتخابی ریلی کی تھی جس میں ماسک پہنے کی پابندی نہیں تھی۔
ٹلسا شہر میں محکمہ صحت کے ایک سینئر افسر بروس ڈارٹ سے جب صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا اس طرح کے بڑے جلسے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب ہوسکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا، ''گزشتہ چند روز میں تقریبا ًپانچ سو کیسز سامنے آئے ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ دو ہفتے قبل ہی یہاں پر کئی بڑے پر ہجوم پروگرام ہوئے تھے۔ تو میرا خیال ہے کہ ہم کڑیوں کو ملا سکتے ہیں۔'' بروس ڈارٹ کا بظاہر اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ صدر ٹرمپ کی انتخابی ریلی اور اس تعلق سے ہونے والی دیگر تقاریب کی وجہ سے کیسز میں ممکنہ طور پر اچانک اضافہ ہوا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جون کو ٹلسا میں منعقد ہونے والے ایک بڑے انتخابی جلسے سے خطاب کیا تھا۔ اس میں ان کے ہزاروں حامی شریک ہوئے تھے جن پر ماسک پہننا لازم نہیں تھا۔ اس حوالے سے طبی ماہرین نے شدید نکتہ چینی کی تھی۔ ٹلسا میں کورونا وائرس کے 4500 مصدقہ کیسز ہیں جبکہ اس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 72 ہے۔
ادھر امریکا میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا وائرس کے 59 ہزار سے بھی زائد کیسز سامنے آئے ہیں اور حکام کے مطابق ایک دن میں انفیکشن کے مصدقہ کیسز کی اتنی بڑی تعداد امریکا میں پہلی بار سامنے آئی ہے۔ ریاست فلوریڈا میں تقریباً 10 ہزار نئے کیسزکی تصدیق ہوئی ہے جبکہ ٹیکسس میں نو ہزار کے قریب اور ریاست کیلفورنیا میں سات ہزار 800 نئے کیسز کا اضافہ ہوا ہے۔
امریکا میں کووڈ 19 سے یومیہ اموات کی شرح میں بھی جون کے اوائل سے پہلی بار اضافہ درج کیا گیا ہے اور اب یومیہ اموات کی شرح تقریباً 900 ہے۔ ملک میں متاثرین کی مجموعی تعداد 30 لاکھ سے بھی زیادہ ہوگئی ہے جبکہ ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد اب تک
ہلاک ہوچکے ہیں۔
انفیکشن کے اتنی تیزی سے پھیلنے کے باوجود امریکی صدر اس بات پر بضد ہیں کہ اسکولوں کو جلد از کھولا جائے۔ بدھ کے روز انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر موسم بہار میں ضلعی انتظامیہ کے تعلیمی اداروں میں طلبہ دوبارہ کلاسز میں واپس نہیں ہوئے تو وہ وفاقی امداد روک دیں گے۔
ص ز / ج ا (ایجنسیاں)
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔