امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹر اکاؤنٹ کی بحالی کے بعد پہلی بار کیپیٹل ہل کے فسادات اور تشدد کی مذمت کرتے ہوئے جو بائیڈن کو منظم طریقے سے اقتدار منقتل کرنے کا عہد کیا ہے۔
اشتہار
سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات سات جنوری کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں انہوں نے امریکی کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے سے متعلق بات چیت کی۔ ٹویٹر نے ان کا اکاؤنٹ بلاک کر دیا تھا، جس کی بحالی کے بعد ان کی جانب سے یہ پہلا ویڈیو پیغام جاری کیا گيا ہے۔
اس ویڈیو میں انہوں نے تشدد کو ’’گھناؤنا‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ’’تمام امریکیوں کی طرح میں بھی، لاقانونیت، تشدد اور تباہی سے نالاں ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ فسادیوں نے، ’’جمہوریت کی سیٹ کے تقدس کو پامال کیا ہے اور جن لوگوں نے بھی قانون کی خلاف ورزی کی ہے انہیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘‘
ان کا یہ نیا بیان ایک روز پہلے والے ان کے اس بیان سے بالکل مختلف ہے، جس میں انہوں نے انتخابات میں اپنے غیر مصدقہ دھاندلی کے دعوؤں کو بار بار دہرایا تھا۔ ایک ایسے وقت میں، جب ان پر مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی انہیں جلد از جلد عہدہ صدرات سے ہٹانے کی کوشش میں ہے، انہوں نے نو منتخب صدر جو بائیڈن کو بغیر کسی رخنہ اندازی کے اقتدار کی منتقلی کا عہد کیا۔
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
12 تصاویر1 | 12
انہوں نے کہا، ’’اب چونکہ کانگریس نے نتائج کی تصدیق کر دی ہے، 20 جنوری کو ایک نئی انتظامیہ کا افتتاح ہو گا۔ اب میری توجہ ہموار، منظم اور بغیر کسی رکاوٹ کے اقتدار کی منتقلی کو یقینی بنانے پر ہو گی۔ بطور صدر امریکا کی خدمت کرنا میرے لیے زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے آخر میں یہ بھی کہا کہ ’’یہ تو بس ہمارے ناقابل یقین سفر کا آغاز ہے۔‘‘
تشدد پر اکسانے کا معاملہ
لیکن صدر ٹرمپ نے اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ انہوں نے ہی بدھ کے روز اپنے حامیوں کو نہ صرف اشتعال دلایا بلکہ کیپیٹل ہل کی عمارت کی جانب مارچ کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ کیپیٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بولنے اور تشدد کے واقعات کے فوری بعد ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنا ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا، جسے بعد میں ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ اس ویڈیو میں انہوں نے اپنے حامیوں کی تعریف کرتے ہوئے نہ صرف انہیں "خصوصی" بتایا، بلکہ انتخابی نتائج سے متعلق اپنے متنازعہ موقف کو بھی دہرایا تھا۔ اسی وجہ سے بعد میں ٹویٹر نے ان کے اکاؤنٹ کو بلاک کر دیا تھا۔
ٹویٹر نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا تھا اگر ٹرمپ غلط بیانی اور تشدد پر اکسانے سے متعلق اصول و ضوابط کی خلاف ورزی جاری رکھیں گے تو ٹویٹر ان پر تاحیات پابندی عائد کر سکتا ہے۔ فیس بک اور انسٹاگرام نے بھی ان کے اکاؤنٹ کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا ہے۔
عہد صدارت سے ہٹانے کا مطالبہ
اس دوران آئندہ 20 جنوری کو جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی صدر ٹرمپ کو عہد صدرات سے ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اس کے لیے امریکی آئین کی 25ویں ترمیم کا بھی ممکنہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس ترمیم کے تحت اگر صدر اپنی ذمہ داریاں اور فرائض پورے کرنے میں ناکام رہے تو کابینہ کی اکثریت صدر کو اقتدار سے بے دخل کر سکتی ہے۔ حالانکہ اس طریقے پر عمل کے لیے نائب صدر کو پہل کرنا ہو گی۔
امریکی صدور کے پالتو جانوروں کی تاریخ
وائٹ ہاؤس کی تاریخ میں امریکی صدور کے ہمراہ متجسس بلیوں سے لے کر اسکینڈل کا سبب بننے والے کتوں سمیت مختلف پالتو جانور رہ چکے ہیں۔ اس مرتبہ جو بائیڈن کے ساتھ بھی ان کے پالتو جانور جلد وائٹ ہاؤس منتقل ہوں گے۔
تصویر: Marcy Nighswander/dpa/picture alliance
جو بائیڈن کا جرمن شیپرڈ
بائیڈن کے جرمن شیپرڈ نسل کے کتے کی ٹانگ اس وقت ٹوٹ گئی جب نومنتخب صدر اس کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے سے پہلے اب بائیڈن کو ایک بلی دی جائے گی۔ وائٹ ہاؤس میں پہلی مرتبہ پالتو بلی امریکا کے دوسرے صدر رتھرفورڈ ہائس لائے تھے۔
تصویر: Stephanie Carter/dpa/picture alliance
ٹرمپ کا کوئی ’فرسٹ پیٹ‘ نہیں تھا
گزشتہ ایک صدی کے عرصے میں ڈونلڈ ٹرمپ ایسے واحد صدر رہے جن کے پاس کوئی پالتو جانور نہیں تھا۔ باراک اوباما کے دو کتے ’بو اور سنی‘ وائٹ ہاؤس میں آخری پالتو جانور تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Souza
کلنٹن کی بلی ’ساکس‘
سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی بلی ’ساکس‘ اور لیبراڈور کتا ان کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں رہتے تھے۔ ساکس اوول آفس میں ایک مرتبہ بل کلنٹن کے کندھوں پر چڑھ کر کھیلتی بھی دیکھی گئی تھی۔
تصویر: Everett Collection/picture alliance
وائٹ ہاؤس کی ویڈیوز میں پالتو جانور
صدر جارج ڈبلیو بش کے دور اقتدار میں وائٹ ہاؤس میں تین کتے اور ایک بلی رہتی تھی۔ بش کے پالتو جانوروں میں سب سے مشہور بارنی اور مِس بیزلی تھے۔ یہ دونوں وائٹ ہاؤس کی کئی ویڈیو سیریز میں دکھائی دیتے تھے۔
تصویر: Jim Watson/AFP /Getty Images
اسکینڈل کا سبب بننے والا ’فرسٹ پیٹ‘
امریکا کے 32ویں صدر فرینکلن دی روزویلٹ کا کتا ’فالا‘ اب تک کا سب سے مشہور صدارتی پالتو جانور رہا ہے۔ سن 1944 میں روزویلٹ اپنے کتے فالا کو غلطی سے چھوڑ کر ایک جزیرے کی سیر کے لیے روانہ ہوگئے۔ اور ایسی افواہ سامنے آئی کہ روزویلٹ نے ٹیکس دہنندگان کے پیسوں سے امریکی بحری جہاز کے ذریعے فالا کو اپنے پاس منگوا لیا۔ روزویلٹ اس الزام کی تردید کرتے تھے۔
تصویر: Richard Maschmeyer/picture alliance
کینیڈی کا پالتو گھوڑا
امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اپنی بیٹی کیرولین کو چھوٹی قد کی نسل کا ایک خوبصورت گھوڑا تحفہ دیا تھا۔ اس کا نام ماکارونی تھا۔ موسم سرما کے دوران وائٹ ہاؤس کے صحن میں کیرولین اور اس کے دوست ماکارونی پر گھڑ سواری کرتے تھے۔
تصویر: akg-images/picture alliance
پالتو جانور کھائے نہیں جاتے
وائٹ ہاؤس کا سب سے انوکھا پالتو جانور راکون ممالیہ تھا، جس کا نام ربیکا تھا۔ صدر کیلون کولج کو یہ راکون تھینکس گونگ کے روایتی پکوان میں استعمال کرنے کے لیے تحفہ دیا گیا تھا۔ لیکن جانور دوست صدر نے اس ممالیہ کو ایک پالتو جانور کے طور پر رکھ لیا۔
تصویر: gemeinfrei
کچھ پالتو جانور کاٹتے ہیں
سن 1820 میں سربراہان مملکت کے لیے غیر ملکی رہنماؤں سے نایاب جانوروں کا تحفہ ملنا معمول کی بات ہوتی تھی۔ صدر جان کوئنسی ایڈمز کو ایک فرانسیسی فوجی جنرل نے ایک مگر مچھ کا بچہ تحفہ دیا تھا۔ بعد ازاں سن 1930 میں صدر ہیبرٹ ہوور کے بیٹے بھی وائٹ ہاؤس میں اپنے ساتھ دو پالتو مگر مچھ لائے تھے۔
تصویر: Rosemary Matthews/Getty Images
8 تصاویر1 | 8
ٹرمپ کو ہٹانے کی مہم میں ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی اور سینیٹ میں ڈیموکریٹ رہنما چک شومر آگے آگے ہیں، جنہوں نے نائب صدر مائیک پینس سے 25ویں ترمیم کے تحت کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔ متعدد میڈیا رپورٹوں کے مطابق چونکہ نائب صدر پینس نے اس پر عمل کرنے سے منع کر دیا ہے، اس لیے اب ٹرمپ کے مواخذے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کانگریس کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے عندیہ دیا ہے کہ اگر نائب صدر مائیک پینس کی قیادت میں کابینہ نے صدر ٹرمپ کو ہٹانے کے لیے 25ویں ترمیم کا استعمال نہ کیا تو وہ ان کے مواخذے کے لیے ایوان نمائندگان کا اجلاس طلب کر سکتی ہیں۔
ڈیموکریٹک رہنماؤں کے ساتھ ساتھ معروف انگریزی اخبار 'دی وال اسٹریٹ جنرل' نے بھی اپنے اداریے میں صدر ٹرمپ کے استعفے یا پھر ان کی برخاستگی کی وکالت کی ہے۔ خود ٹرمپ انتظامیہ کے بعض سینئر اراکین بھی کیپیٹل ہل کے تشدد کے مخالفت میں مستعفی ہو چکے ہیں۔