ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین میں جھڑپیں، فائرنگ میں ایک ہلاک
31 اگست 2020
امریکی شہر پورٹ لینڈ میں صدر ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں کی ریلی نکلنے کے بعد ایک شخض کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تاہم پولیس نے متاثرہ شخص کی نہ تو شناخت ظاہر کی اور نہ ہی قتل کے محرکات کے متعلق کوئی بیان جاری کیا ہے۔
اشتہار
امریکی شہر پورٹ لینڈ میں صدر ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں کی ایک ریلی کے دوران مخالفین سے کئی مقامات پر جھڑپیں پیش آئی تھیں۔ ہفتے کی شام کو جب ٹرمپ کی حامیوں کی ریلی شہر سے مارچ کرتے ہوئے باہر نکلی تو اس کے کچھ دیر بعد ہی ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کرنے کا واقعہ پیش آیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی اس واردات سے متعلق اس کے پاس معلومات بہت کم ہیں اسی لیے عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ اس بارے میں اگر کسی کے پاس کوئی ویڈیو، فوٹو ہو یا کوئی عینی شاہد ہو تو وہ پولیس کو آگاہ کرے اور تفتیش میں پولیس کی مدد کرے۔
محکمہ پولیس نے ابھی تک متاثرہ شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے اور اس میں ملوث ہونے والے افراد کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ شہر کے پولیس سربراہ چک لول کا کہنا تھا کہ اس طرح کے تشدد کو قطعی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ''ابھی اس کی تفتیش ابتدائی مرحلے میں ہے، اور میں ہر شخص سے یہ کہنا چاہتا ہوں کو اس معاملے میں اپنا اپنا نتیجہ اخذ کرنے بجائے تفتیش کاروں کو وقت دیں کہ وہ اپنی جانچ مکمل کر سکیں۔''
پورٹ لینڈ میں موجود جن مقامی صحافیوں نے جائے ورادات کا دورہ کیا ان کا کہنا ہے کہ جس شخص کو ہلاک کیا گیا ہے اس نے اپنے سر پر ایک ایسی ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر دائیں بازو کے انتہا پسند گروپ 'پیٹریاٹ پریئر' کا نشان لگا ہوا تھا۔ حالیہ ہفتوں میں شہر کے اندر 'بلیک لائیو میٹر' تحریک کے دوران اس گروپ کا مظاہرین کے ساتھ کئی بار جھگڑا ہوچکاہے۔
ریلی کے بعد متاثرہ شخص کو ہلاک کیا گیا
پولیس کے ایک بیان کے مطابق سنیچر 29 اگست کو شہر میں منعقد ہونے والے تقریباً چھ سوگاڑیوں پر مشتمل 'ٹرمپ کارواں ' میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور جب یہ ریلی ڈاؤن ٹاؤن شہر سے باہر نکلی تو اس کے 15 منٹ بعد شوٹنگ کا یہ واقعہ پیش آیا۔ اس کے مطابق متاثرہ شخص کے سینے میں گولی لگی اور انہیں بچایا نہیں جا سکا۔ پولیس نے یہ بھی نہیں بتایا کہ قتل کا تعلق ٹرمپ کی ریلی یا پھر مظاہروں سے ہوسکتا ہے۔
امریکی شہر پورٹ لینڈ اور دیگر شہروں میں منظم نسل پرستی اور پولیس کی زیادتیوں کے خلاف ہفتوں احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ ان مظاہروں کی ابتداء ایک سیاہ فام شخص جارج فلوئیڈ کی پولیس کی تحویل میں ہلاکت کے بعد ہوئی تھی۔ دو سفید فام پولیس افسران نے جارج کو پکڑا تھا اور ان میں ایک نے انہیں زمین پر گرا کر ان کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ کر نو منٹ تک دبا ئے رکھا تھا۔ وہ اس دوران یہ کہتے رہے کہ میرا دم گھٹ رہا ہے تاہم پولیس نے ایک نہ سنی اور بالآخر ان کی جان نکل گئی۔
ریاست وسکونسن کے شہر کینوشا میں بھی چند روز قبل پولیس اہلکاروں نے ایک نہتھے سیام فام 29 سالہ جیکب بلیک پر سات بار فائر کیا تھا جس کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وقت پر اسپتال پہنچنے کے سبب ان کی جان بچ گئی۔ تاہم اس واقعہ کے خلاف بھی احتجاجی مظاہروں کے دوران فائرنگ کے ایک واقعے میں دو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک 17 سالہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یکم ستمبر کو صدر ٹرمپ خود کینوشا کا دورہ کرنے والے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی ڈی پی اے)
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔