’صدر پوٹن نے پورے یوکرین پر قبضے کا ہدف ترک نہیں کیا‘
21 دسمبر 2025امریکی انٹیلیجنس رپورٹس میں خبردار کیا گیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین پر مکمل قبضے اور سابق سوویت یونین کے حصے کے طور پر یورپ کے کچھ علاقوں پر دوبارہ دعویٰ کرنے کے اپنے مقاصد کو ترک نہیں کیا۔ یہ بات ان چھ ذرائع نے بتائی ہے، جو امریکی انٹیلیجنس سے واقف ہیں۔ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے، جب صدر ٹرمپ کے مذاکرات کار یوکرینی جنگ کے خاتمے کی کوشش کر رہے ہیں اور ممکنہ معاہدے کے تحت روس کو بہت کم علاقہ ملے گا۔
یہ رپورٹس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے امن مذاکرات کاروں کی جانب سے پیش کی گئی اُس تصویر سے بالکل مختلف ہیں، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پوٹن تنازع ختم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی انٹیلیجنس اہلکاروں نے صدر پوٹن کے اس دعوے کی بھی تردید کی ہے کہ وہ یورپ کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ تازہ رپورٹیں یورپی رہنماؤں اور خفیہ ایجنسیوں کے ان خیالات سے بڑی حد تک مطابقت رکھتی ہیں کہ صدر پوٹن پورے یوکرین اور سابق سوویت بلاک کے ممالک کے کچھ علاقوں پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس انٹیلیجنس کمیٹی کے ڈیموکریٹ رکن مائیک کوئگلی نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو ایک انٹرویو میں بتایا، ''انٹیلیجنس ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ پوٹن مزید چاہتے ہیں۔ یورپی اس بات پر قائل ہیں۔ پولینڈ والے بالکل قائل ہیں۔ بالٹک ممالک سمجھتے ہیں کہ انہیں پہلے نشانہ بنایا جائے گا۔‘‘
روس یوکرین کے تقریباً 20 فیصد علاقے پر قابض ہے۔ ان میں لوہانسک اور ڈونیٹسک کے بڑے حصے بھی شامل ہیں، جو ڈونباس کے صنعتی مراکز ہیں۔ اسی طرح زاپوریژیا اور خیرسون کے کچھ حصے بھی ان میں شامل ہیں۔ کریمیا بحیرہ اسود کا اسٹریٹیجک جزیرہ نما ہے اور یہ بھی روس کے قبضے میں ہے۔
صدر پوٹن کریمیا اور ان چاروں صوبوں کو روس کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
دو امریکی ذرائع کے مطابق صدر ٹرمپ یوکرینی صدر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ڈونیٹسک کے جس چھوٹے حصے پر کنٹرول رکھتے ہیں، اس سے اپنی فورسز واپس بلا لیں، جو ایک مجوزہ امن معاہدے کا حصہ ہے۔ یہ مطالبہ یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی اور زیادہ تر یوکرینی مسترد کرتے ہیں۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے ان انٹیلیجنس رپورٹس کا حوالہ دیے بغیر بتایا، ''صدر کی ٹیم نے جنگ ختم کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ پیش رفت کی ہے اور ٹرمپ نے کہا ہے کہ امن معاہدہ پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہے۔‘‘
ہفتے کے روز اپنی ایک ایکس پوسٹ میں نیشنل انٹیلیجنس کی ڈائریکٹر تلسی گبارڈ نے کہا کہ انٹیلیجنس افسران نے قانون سازوں کو بریف کیا ہے کہ روس ''یورپ کے ساتھ بڑی جنگ سے بچنا چاہتا ہے‘‘ اور یوکرین میں اس کی فوج کی کارکردگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پاس فی الحال ''پورے یوکرین پر قابض ہونے کی صلاحیت نہیں ہے، تو یورپ کی بات ہی چھوڑیں۔‘‘
نیشنل انٹیلیجنس آفس، سی آئی اے اور روسی سفارت خانے نے اس تناظر میں کسی بھی تبصرے کی درخواست کا کوئی فوری جواب نہیں دیا۔
سکیورٹی ضمانتوں پر پیش رفت
صدر ٹرمپ کے مذاکرات کار، ان کے داماد جیرڈ کُشنر اور ارب پتی ریئل اسٹیٹ ڈویلپر اسٹیو وٹکوف کئی ہفتوں سے یوکرینی، روسی اور یورپی حکام کے ساتھ 20 نکاتی امن منصوبے پر بات چیت کر رہے ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پیش رفت ہوئی ہے لیکن علاقائی مسائل پر بڑے اختلافات باقی ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ کُشنر اور وٹکوف جمعے کو میامی میں یوکرینی مذاکرات کاروں سے ملے اور اس ہفتے کے آخر میں روسی نمائندوں سے بات چیت کریں گے۔
امریکی، یوکرینی اور یورپی مذاکرات کاروں نے گزشتہ پیر کو برلن میں بات چیت کے دوران کچھ معاملات پر اتفاق کیا تھا۔ چار یورپی سفارت کاروں اور اس معاملے سے واقف دو ذرائع نے اس اتفاق رائے کو ''مضبوط امریکی حمایت یافتہ ضمانتوں‘‘ سے تعبیر کیا ہے، جو مستقبل میں روسی جارحیت کے خلاف یوکرین کو سکیورٹی کی ضمانت دیں گی۔
ایک ذریعے اور ایک سفارت کار نے کہا کہ یہ ضمانتیں یوکرین کے کچھ علاقے روس کو دینے پر منحصر ہیں۔ لیکن دیگر سفارت کاروں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے اور متبادل راستوں پر غور کیا جا رہا ہے کیونکہ زیلنسکی نے یوکرینی علاقے روس کو دینے سے انکار کر دیا ہے۔
سفارت کاروں نے بتایا کہ ضمانتوں میں، جو امن معاہدے پر دستخط کے بعد نافذ ہوں گی، یوکرین میں یورپی سکیورٹی فورسز کی تعیناتی بھی شامل ہے۔
ایک ذریعے نے بتایا کہ یوکرین کی فوج کو آٹھ لاکھ تک محدود رکھا جائے گا لیکن کئی سفارت کاروں نے کہا کہ روس اس سے بھی کم حد چاہتا ہے، جس پر امریکی تیار ہیں۔
صدر زیلنسکی نے جمعرات کو ان تجاویز کے حوالے سے احتیاط کا مظاہرہ کیا اور کہا، ''ایک سوال ہے، جس کا مجھے ابھی تک جواب نہیں ملا۔ یہ سکیورٹی ضمانتیں عملی طور پر کیا کریں گی؟‘‘
اور یہ بالکل غیر یقینی ہے کہ صدر پوٹن ایسی ضمانتوں پر اتفاق کریں گے کیونکہ انہوں نے یوکرین میں غیر ملکی فوجوں کی تعیناتی کو بار بار مسترد کیا ہے۔
علاقوں کی حوالگی کے مطالبات پر زور
پوٹن نے جمعے کو اپنی سالانہ نیوز کانفرنس میں کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا، حالانکہ انہوں نے کہا کہ وہ امن پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی شرائط پوری ہونا چاہییں کیونکہ روسی فورسز نے اس سال 6,000 مربع کلومیٹر کا علاقہ حاصل کیا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی حکام کا پوٹن کے مطالبات پر ردعمل کیا ہے۔ وٹکوف نے پہلے تجویز کیا تھا کہ روس کو ان چار صوبوں اور کریمیا پر دعوے کا حق حاصل ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کچھ حکام نے تسلیم کیا ہے کہ شاید پوٹن مکمل یوکرین کو فتح کرنے کے اپنے ابتدائی مقصد سے کم پر راضی نہ ہوں۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعے کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا، ''مجھے نہیں معلوم کہ پوٹن معاہدہ کرنا چاہتے ہیں یا پورا ملک لینا چاہتے ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں، جو انہوں نے کھل کر کہی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جنگ شروع ہونے پر ان کا کیا مقصد تھا۔ تاہم انہوں نے وہ مقاصد حاصل نہیں کیے۔‘‘