کیا سال دو ہزار بیس پہلے ہی بہت برا نہیں تھا؟ اب روس میں نئی جابرانہ قانونی ترامیم کا ایک سیلاب آنا شروع ہو گیا ہے۔ اس سیلاب کے خلاف ردعمل ناپید ہے۔ ڈی ڈبلیو کے میخائیل بوشوئیف کے مطابق یہ صورت حال بہرطور بدلنا چاہیے۔
روسی صدر پوٹن منسک حکومت کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں (تصویر) جیسے وسیع تر احتجاج سے بچنا چاہتے ہیںتصویر: picture alliance/dpa
اشتہار
اپنے تاحیات اقتدار کو یقینی بنانے کے لیے روسی صدر ولادیمیر پوٹن نہ صرف یہ کہ کسی بھی اقدام سے ہچکچاتے نہیں بلکہ وسیع تر عوامی مظاہروں کو کچلنے کے لیے ریاستی طاقت کے ناجائز استعمال کو بھی قانونی شکل دیتے جا رہے ہیں۔ روسی پارلیمان کے ریاستی دُوما کہلانے والے ایوان زیریں نے اسی ماہ بڑی جلد بازی میں کئی دور رس قانونی ترامیم کی منظوری دے دی۔
شہری حقوق پر قدغنیں
ان ترامیم کا اطلاق عوام کے اجتماع کے حق اور اطلاعات کے حق جیسے قوانین پر ہوتا ہے، جنہیں اب بہت حد تک محدود کر دیا گیا ہے جبکہ سنسرشپ کے لیے اقدامات مزید سخت کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس کو حاصل اختیارات آئندہ تقریباﹰ لامحدود ہو جائیں گے۔ روسی حکام اب کسی بھی شخص کو 'غیر ملکی ایجنٹ‘ قرار دے سکتے ہیں۔
یہ ان قانونی ترامیم کی محض ایک جزوی فہرست ہے۔ ان ترامیم کا مقصد بظاہر روس کو نام نہاد 'غیر ملکی مداخلت‘ سے بچانا ہے۔ لیکن ان ترامیم کے دوران ان کی واضح طور پر جابرانہ نوعیت کو چھپانے کی بس اتنی ہی کوشش کی گئی ہے، جتنی کسی بینک میں ڈاکہ ڈالنے والے اپنے ہتھیار چھپانے کے لیے کرتے ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن: دو عشروں سے برسراقتدار اور نظریں آج بھی مستقبل میں اقتدار میں ہی رہنے پرتصویر: Alexei Nikolsky/AP Photo/picture alliance
ان ترامیم کے ذریعے دیا جانے والا پیغام بہت واضح ہے: دیکھ لیں، ہم بیلاروس کے آمر حکمران لوکاشینکو کے مقابلے میں زیادہ ہوشیار ہیں۔ ہم ابھی سے اس بات کا سدباب کر رہے ہیں کہ عوامی مظاہرے حکومت کے لیے درد سر بن جائیں۔
’جو ہے، جہاں ہے، جیسے ہے، آئندہ بھی ویسے ہی‘
روس میں دُوما کو اکثر صدر پوٹن کی صوابدید پر جلد بازی میں اور بغیر کسی گہرے تفکر کے قانون سازی کرنے کی وجہ سے شہری آزادیوں کو محدود کرنے والا پارلیمانی ادارہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سال 2020ء میں بھی دُوما نے اپنا یہ عمومی تاثر ختم نہیں ہونے دیا۔
ڈی ڈبلیو کی روسی سروس کے میخائیل بوشوئیفتصویر: DW
اس کی ایک مثال ماضی میں روسی آئین میں کی جانے والی وہ ترامیم ہیں، جن کے بعد اصولی طور پر صدر پوٹن کے لیے 2036ء تک اقتدار میں رہنا ممکن ہو چکا ہے حالانکہ وہ تقریباﹰ دو عشروں سے تو پہلے ہی اقتدار میں ہیں، کبھی صدر اور کبھی وزیر اعظم کے طور پر۔
اس سال روس میں جو خاص بات نظر آئی، وہ یہ تھی کہ سابق سوویت یونین کی جانشین اس ریاست میں سیاسی طور پر یا ذرائع ابلاغ کی سطح پر کوئی بڑی اختلافی آواز اٹھائی ہی نہیں گئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ روس میں سیاستدانوں اور میڈیا کی اکثریت ولادیمیر پوٹن کی حمایت میں اپنی صف بندی کر چکی ہے۔
پوٹن کی ترجیحات
موجودہ روس میں اقتصادی اور سماجی مسائل شدید تر ہوتے جا رہے ہیں اور سیاسی مسائل کی تو کوئی بات ہی کیا کرے۔ ان حالات میں سوال یہ ہے کہ خود صدر پوٹن آخر کیا چاہتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ کریملن میں پوٹن جو کچھ بھی چاہتے ہیں، وہ یہ تو بالکل نہیں ہے کہ ملک کو درپیش سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کو حل کیا جائے۔
ولادیمیر پوٹن کے مختلف چہرے
امریکی جریدے ’فوربز‘ نے اپنی سالانہ درجہ بندی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ دیکھتے ہیں، پوٹن کی شخصیت کے مختلف پہلو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کے جی بی سے کریملن تک
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev
پہلا دورِ صدارت
یلسن کی حکومت میں پوٹن کی تقرری کے وقت زیادہ تر روسی شہری اُن سے ناواقف تھے۔ یہ صورتِ حال اگست 1999ء میں تبدیل ہو گئی جب چیچنیہ کے مسلح افراد نے ہمسایہ روسی علاقے داغستان پر حملہ کیا۔ صدر یلسن نے کے جی بی کے سابق افسر پوٹن کو بھیجا تاکہ وہ چیچنیہ کو پھر سے مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول میں لائیں۔ سالِ نو کے موقع پر یلسن نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دے دیا اور پوٹن کو قائم مقام صدر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
میڈیا میں نمایاں کوریج
سوچی میں آئس ہاکی کے ایک نمائشی میچ میں پوٹن کی ٹیم کو چھ کے مقابلے میں اٹھارہ گول سے فتح حاصل ہوئی۔ ان میں سے اکٹھے آٹھ گول صدر پوٹن نے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Nikolsky
اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں
اپوزیشن کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ایک شخص نے منہ پر ٹیپ چسپاں کر رکھی ہے، جس پر ’پوٹن‘ لکھا ہے۔ 2013ء میں ماسکو حکومت نے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کا اعلان کرتے ہوئے اُس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا، جسے مغربی دنیا کا سخت ناقد سمجھا جاتا تھا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے پریس فریڈم کے اعتبار سے 178 ملکوں کی فہرست میں روس کو 148 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/V.Maximov
پوٹن کی ساکھ، اے مَین آف ایکشن
روس میں پوٹن کی مقبولیت میں اس بات کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کہ وہ کے جی بی کے ایک سابق جاسوس اور عملی طور پر سرگرم شخص ہیں۔ اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو ایسی تصاویر کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اُنہیں برہنہ چھاتی کے ساتھ یا کسی گھوڑے کی پُشت پر یا پھر جُوڈو کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ روس میں استحکام لانے پر پوٹن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن آمرانہ طرزِ حکمرانی پر اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Nikoskyi
دم گھونٹ دینے والی جمہوریت
2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں صدر پوٹن کی جماعت ’یونائیٹڈ رَشیا‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناقدین نے کہا تھا کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی جمہوری۔ صدر پوٹن پر دم گھونٹ دینے والی جمہوریت کا الزام لگانے والوں نے جلوس نکالے تو پولیس نے اُن جلوسوں کو منتشر کر دیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ اس جلوس میں ایک پوسٹر پر لکھا ہے:’’شکریہ، نہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/Y.Kadobnov
پوٹن بطور ایک مہم جُو
سیواستوپول (کریمیا) میں پوٹن بحیرہٴ اسود کے پانیوں میں ایک ریسرچ آبدوز کی کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں۔ اِس مِنی آبدوز میں غوطہ خوری اُن کا محض ایک کرتب تھا۔ انہیں جنگلی شیروں کے ساتھ گھومتے پھرتے یا پھر بقا کے خطرے سے دوچار بگلوں کے ساتھ اُڑتے بھی دکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں اُن کی بطور ایک ایسے مہم جُو ساکھ کو پختہ کر دیا جائے، جسے جبراً ساتھ ملائے ہوئے علاقے کریمیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Novosti/RIA Novosti/Kremlin
7 تصاویر1 | 7
روس کی موجودہ قیادت تو اب یہ ظاہر کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتی کہ وہ اس ملک کے مستقبل سے متعلق کسی واضح سوچ کی حامل ہے۔ پوٹن اور موجودہ روسی حکمرانوں کا ہدف صاف نظر آتا ہے: حالات کو 'جو ہے، جہاں ہے، جیسے ہے‘ کی بنیاد پر اسی طرح رکھا جائے، اس وقت تک جب تک پوٹن اور ان کے سیاسی اقرباء کو اس کی ضرورت ہو۔ اس کی قیمت کون چکائے گا؟ روسی عوام! اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس امر کو روس کے مستقبل کا نام دیا جا سکتا ہے؟
پوٹن روس کا حال ہیں، مستقبل نہیں
برسلز، برلن اور واشنگٹن میں بھی اس بات سے اتفاق کیا جاتا ہے کہ پوٹن روس کا زمانہ حال تو ہیں مگر مستقبل نہیں۔ روس کی اعلیٰ سیاسی قیادت میں تبدیلی اور نئی نسل کا سامنے آنا کبھی نہ کبھی تو ممکن ہو گا ہی۔ ایسے میں یورپی یونین کو روس سے متعلق اپنی سیاست میں مستقبل کے تقاضوں کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔
آج کے روسی صدر پوٹن کا مستقل روس کے ماضی میں ہے۔ لیکن روسی عوام کا مستقبل کیا اور کیسا ہو گا، اس کے تعین میں آج کے حالات کے اثرات سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آج اگر پوٹن اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہیں تو یورپی یونین کو بھی روس کے ساتھ اپنے مستقبل کے تعلقات کے لیے آج ہی سے فکر کرنا ہو گی۔
میخائیل بوشوئیف (م م / ا ا)
ولادیمیر پوٹن کے سیاسی کیرئر پر ایک نظر
روس میں اٹھارہ مارچ کو منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن میں اقتدار پر مکمل قابض ولادیمیر پوٹن کی کامیابی یقینی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے برسراقتدار پوٹن کی سیاسی زندگی کب اور کیسے شروع ہوئی؟
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Zemlianichenko
ولادت اور ابتدائی تعلیم
ولادیمیر ولادیمیروِچ پوٹن سات اکتوبر سن انیس سو باون کو سابق سوویت شہر لینن گراڈ (موجود سینٹ پیٹرز برگ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ولادیمیر پوٹن تھا، جو ایک فیکٹری میں بطور فورمین ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا بچپن ایک ایسے اپارٹمنٹ میں گزارا، جہاں تین کنبے رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے سن 1975 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
تصویر: picture-alliance/Globallookpress.com
پہلی ملازمت خفیہ ایجنسی میں
گریچویشن کے فوری بعد ہی پوٹن نے سابقہ سوویت خفیہ ایجنسی ’کمیٹی فار اسٹیٹ سکیورٹی‘ KGB میں ملازمت اختیار لی۔ بطور غیر ملکی ایجنٹ انہوں نے 1985ء تا 1990ء سابقہ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں خدمات سر انجام دیں۔ 1990ء میں پوٹن لینن گراڈ اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے نائب ڈین بن گئے۔
تصویر: AP
سیاست میں عملی قدم
جون سن 1991 میں پوٹن نے ’کے جی بی‘ سے مستعفیٰ ہوتے ہوئے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ تب انہوں نے لینن گراڈ کے میئر اناطولی سابچک کے مشیر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس وقت پوٹن کو سٹی ہال میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران وہ بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ذمہ داریاں نبھانے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کریملن میں داخلہ
سن انیس سو ستانوے میں سابق صدر بورس یلسن نے پوٹن کو کریملن کا نائب چیف ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ ایک سال بعد ہی پوٹن فیڈرل سکیورٹی سروس (ایف ایس بی) کے سربراہ بنا دیے گئے جبکہ انیس سو ننانوے میں انہیں ’رشین سکیورٹی کونسل‘ کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا، جب سوویت یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں روس میں اقتصادی اور سماجی مسائل شدید ہوتے جا رہے تھے۔
تصویر: Imago
بطور وزیر اعظم
نو اگست انیس سے ننانوے میں ہی بورس یلسن نے پوٹن کو وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ اسکنڈلز کی زد میں آئے ہوئے یلسن اسی برس اکتیس دسمبر کو صدارت کے عہدے سے الگ ہوئے گئے اور پوٹن کو عبوری صدر بنا دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صدارت کے عہدے پر براجمان
چھبیس مارچ سن دو ہزار کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پوٹن نے سات مئی کو بطور صدر حلف اٹھایا۔ تب کسی کو معلوم نہ تھا کہ پوٹن کا دور اقتدار نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ بن جائے گا۔ پوٹن کے پہلے دور صدارت میں روس نے اقتصادی مسائل پر قابو پایا، جس کی وجہ سے پوٹن کی عوامی مقولیت میں اضافہ ہوا۔
تصویر: AP
دوسری مدت صدارت
پندرہ مارچ سن دو ہزار چار کے صدارتی الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر مہم چلاتے ہوئے پوٹن نے دوسری مرتبہ بھی کامیابی حاصل کر لی۔ سات مئی کے دن انہوں نے دوسری مدت صدارت کے لیے حلف اٹھایا۔ تاہم پوٹن کی طرف سے اقتدار پر قبضہ جمانے کی کوشش کے تناظر میں عوامی سطح پر ان کے خلاف ایک تحریک شروع ہونے لگی۔
تصویر: AP
اسرائیل کا دورہ
ستائیس اپریل سن دو ہزار سات میں پوٹن نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یوں انہوں نے ایسے پہلے روسی رہنما ہونے کا اعزاز حاصل کیا، جس نے اسرائیل کا دورہ کیا ہوا۔ اسی برس برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے ملاقات کے دوران پوٹن لندن حکومت کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون میں بہتری کا اعلان کیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/pool
صدر سے وزیر اعظم
دو مارچ سن دو ہزار آٹھ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن بطور امیدوار میدان میں نہ اترے کیونکہ روسی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص مسلسل دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ تاہم اس مرتبہ پوٹن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔ تب پوٹن کے انتہائی قریبی ساتھی دمتری میدودف کو روس کا صدر منتخب کیا گیا۔
تصویر: Reuters/Y. Kochetkov
تیسری مرتبہ صدر کا عہدہ
چوبیس ستمبر سن دو ہزار گیارہ کو میدودف نے ولادیمیر پوٹن کو ایک مرتبہ پھر صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ تب پوٹن نے تجویز کیا کہ اگر پارلیمانی الیکشن میں میدودف کی سیاسی پارٹی یونائٹڈ رشیا کو کامیابی ملتی ہے تو انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے۔
تصویر: Getty Images/M.Metzel
دھاندلی کے الزامات اور مظاہرے
چار مارچ سن دو ہزار بارہ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن کو 65 فیصد ووٹ ملے اور وہ تیسری مرتبہ ملکی صدر منتخب ہو گئے۔ تاہم اس مرتبہ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ انتخابی عمل کے دوران دھاندلی کی گئی۔ سات مئی کو جب پوٹن نے صدر کا حلف اٹھایا تو روس بھر میں ان کے خلاف مظاہروں کا انعقاد بھی کیا گیا۔
تصویر: AP
چوتھی مرتبہ صدارت کے امیدوار
چھ دسمبر سن دو ہزار سترہ کو پوٹن نے اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی صدارت کے عہدے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ روس میں اٹھارہ مارچ کو ہونے والے الیکشن میں پوٹن کی کامیابی یقینی قرار دی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پوٹن نے اپوزیشن کو خاموش کرانے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اور اقتدار کے ایوانوں پر ان کا قبضہ ہے، اس لیے وہ اس الیکشن میں بھی جیت جائیں گے۔