1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدر کے خلاف خط نہیں لکھ سکتے، گیلانی

19 جنوری 2012

پاکستانی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت یکم فروری تک ملتوی کر دی ہے۔ گیلانی نے عدالت کو بتایا کہ صدر آصف زرداری کو مقدموں سے استثنیٰ حاصل ہے۔

تصویر: Reuters

وزیراعظم گیلانی آج جمعرات کو اپنے وکیل اعتزاز احسن کے ہمراہ سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔

سپریم کورٹ میں وزیراعظم نے ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عدلیہ اور اس کے فیصلوں کا احترام کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے عدالت میں پیش ہونے کا مقصد بھی آئین اور قانون کی بالادستی کوتسلیم کرنا ہے تاہم وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آصف زرداری دو تہائی اکثریت سے ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں اور انہیں خط لکھ کر ’’بھیڑیوں‘‘ کے سامنے نہیں ڈالا جا سکتا۔

وزیراعظم گیلانی کو عدالت نے این آر او سے متعلق اپنے فیصلے کی روشنی میں صدر زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں میں قائم مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے خط نہ لکھنے پر اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا، جو کسی بھی شخص کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ سات رکنی بینچ نے وزیراعظم گیلانی کی عدالت میں آمد کو خوش آئند قرار دیا۔

وزیراعظم کے ہمراہ ان کے وکیل اعتزاز احسن بھی تھےتصویر: Abdul Sabooh

 وزیراعظم  کے سپریم کورٹ میں ابتدائی بیان کے بعد ان کے وکیل اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرانے کے لیے توہین عدالت کے نوٹس جاری نہیں کیے جانے چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی فوجداری نوعیت کی ہے، جس میں وزیراعظم کو آئین کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔

ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی سماعت میں اعتزاز احسن نے جواب داخل کرانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت طلب کی تاہم عدالت نے انہیں 2 ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے اس مقدمے کی سماعت یکم فروری تک ملتوی کر دی۔ عدالت میں وزیراعظم کی موجودگی کے دوران ہی جڑواں شہروں راولپنڈی، اسلام آباد کے وکلاء کی بڑی تعداد جمع ہو گئی، جنہوں نے عدلیہ کے حق اور حکومت کی مخالفت میں نعرے لگائے۔

اسی صورتحال میں وزیراعظم عدالت کے باہر موجود بڑی تعداد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کیے بغیر روانہ ہو گئے تاہم وزیر قانون مولا بخش چانڈیو نے صحافیوں کو بتایا، ’’ہم اپنی عدلیہ کی عزت کرتے ہیں تمام اداروں کی عزت کرتے ہیں، ہمارا اداروں سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ہم ان کے تقدس کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارا تقاضا یہ ہے کہ جہاں ہم اور اداروں کی عزت کرتے ہیں وہاں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی ہے اس کی بھی حیثیت اور تقدس کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔‘‘

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اکرام چوہدری نے عدالت کے احاطے میں وکلاء کی نعرے بازی کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا، ’’معاشرے کے سب طبقے، جس میں وکلاء بھی ہیں، محسوس کرتے ہیں کہ شاید یہ عدلیہ پر ایک اور حملہ ہے اور میرا یہ خیال ہے کہ عدلیہ اور اس کے فیصلوں کا رد کیا جانا ایک ایسی چیز ہے، جو پوری قوم کے علم میں ہے اور یہ اس کے خلاف ایک ردعمل ہو سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمیں توازن برقرار رکھنا چاہیے۔‘‘

معروف صحافی اور تجزیہ کار عارف نظامی نے وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے ملکی سیاست پر مضمرات کے بارے میں کہا، ’’اعتزاز صاحب نے مزید تیاری کے لیے وقت مانگا ہے اور اب یکم فروری کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ابھی تو میرا خیال ہے کہ غیر یقینی کی صورتحال چلتی رہے گی، جب تک اس مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا کیونکہ توہین عدالت کی جو تلوار ہے، وہ وزیراعظم صاحب پر بدستور لٹک رہی ہے۔‘‘ تاہم  بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کی عدالت میں آمد اور ان کے طرز عمل سے ملک میں ایک اچھی روایت قائم ہوئی ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں