صدی کے آخر تک ہمالیہ کے دو تہائی گلیشیئرز پگھل جانے کا خطرہ
4 فروری 2019
رواں صدی کے آخر تک ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع وسیع و عریض گلیشیئرز میں سے دو تہائی کے پگھل جانے کا خطرہ ہے۔ یہ بات سائنسدانوں نے اپنی ایک ایسی نئی رپورٹ میں کہی ہے، جو آج پیر چار فروری کو جاری کی گئی۔
اشتہار
نیپال میں، جہاں دنیا کی کئی بلند ترین پہاڑی چوٹیاں واقع ہیں، ملکی دارالحکومت کھٹمنڈو سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس نئے لیکن بہت طویل سائنسی مطالعے کے مطابق ہمالیہ کے وسیع و عریض گلیشیئرز میں سے دو تہائی کے سن اکیس سو تک پگھل جانے کا خدشہ ہے۔
ساتھ ہی اس مطالعاتی رپورٹ میں یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ اگر زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو محدود رکھنے سے متعلق پیرس کے عالمی ماحولیاتی معاہدے کے اہداف حاصل کر بھی لیے گئے، تو بھی ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے ایک تہائی گلیشیئرز ناپید ہو جائیں گے۔
پیرس کے عالمی ماحولیاتی معاہدے میں زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو زیادہ سے زیادہ صرف 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کو ہدف بنایا گیا ہے۔
یہ رپورٹ پیر چار فروری کو کھٹمنڈو میں قائم اس بین الاقوامی مرکز نے جاری کی، جو پہاڑی خطوں کی ترقی اور حفاظت کے لیے سرگرم ہے اور مختصراﹰ ICIMOD کہلاتا ہے۔
نیپال دنیا کے ان آٹھ ممالک میں سے صف اول کا ملک ہے، جسے اپنے ہاں گلیشیئرز کے پگھل جانے سے شدید ترین خطرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ نئی رپورٹ ہندوکش ہمالیہ (HKH) کے پہاڑی علاقے کے بارے میں تیار کی گئی ہے، جہاں مجموعی طور پر گلیشیئرز اتنے زیادہ اور بڑے ہیں کہ ان کی وجہ سے اس خطے کو قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا کا ’تیسرا قطب‘ یا ’تھرڈ پول‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس خطے میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے حاصل ہونے والا پانی قریبی پہاڑی علاقوں میں آباد 25 کروڑ (250 ملین) انسانوں اور مختلف ممالک میں ان پانیوں سے بننے والے دریاؤں کی وادیوں میں بسنے والے ایک ارب 65 کروڑ (1.65 بلین) انسانوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
انہی گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے دنیا کے دس انتہائی اہم دریائی نظاموں کو پانی ملتا ہے، جن میں دریائے گنگا، دریائے سندھ، دریائے زرد اور دریائے میکانگ جیسے بہت طویل دریائی نظام شامل ہیں۔
کے ٹو یا چھو گوری: ایک چیلنج
پاکستان کے شمالی علاقے میں کئی انتہائی بلند پہاڑی چوٹیاں واقع ہے۔ ان میں کے ٹو کے علاوہ نانگا پربت، گیشن بروم اور براڈ پیک نمایاں ہیں۔ یہ کوہ پیماؤں کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Daffue
کے ٹو: دوسری بلند ترین چوٹی
پاکستان کا شمالی پہاڑی علاقہ تین پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے ملاپ کی جگہ بھی ہے۔ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے تین اسی علاقے میں واقع ہیں۔ کے ٹو ان میں سے ایک ہے، جس کی بلندی 8611 میٹر( 28251 فٹ) ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/S. Majumder
سفاک پہاڑی چوٹی : کے ٹو
کے ٹو پہاڑی چوٹی کا پورا نام ماؤنٹ گوڈوِن آسٹن ہے۔ اردو میں اسے چھو گوری (چھو غوری) کہتے ہیں۔ بلتی زبان بولنے والے مقامی لوگ کے ٹو کو اسی نام سے پکارتے ہیں۔ اب تک اس چوٹی کو سر کرنے کی کوشش میں 75 سے زائد کوہ پیما جاں بحق ہو چکے ہیں۔ روایت کے مطابق ہر چار برس بعد اس چوٹی کی جانب بڑھنے والوں میں سے کوئی ایک ہلاک ہو جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
کے ٹو ٹریجڈی
سن 2008 میں کے ٹو کی مہم میں جانے والے گیارہ کوہ پیماؤں کو شدید برفانی طوفان نے اپنی لپیٹ میں لے کر ہلاک کر دیا تھا۔ انہی میں ایک پاکستانی فضل کریم بھی شامل تھا۔ ہلاک ہونے والے کوہ پیماؤں کا تعلق نیپال، جنوبی کوریا، آئر لینڈ، فرانس اور سربیا سے تھا۔ ہلاک شدگان میں مشہور فرانسیسی کوہ پیما Hugues D'Aubarede بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/A. Qureshi
کے ٹو کے راستوں کے ماہر: جہان بیگ
وادئ ہنزہ کے شمشال درے کے باسی جہان بیگ کے ٹو سر کرنے والوں میں شہرت رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی فضل علی کی طرح تین مرتبہ کے ٹو سر کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن تصدیق ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ جہان بیگ سن 2008 میں کے ٹو کی مہم کے دوران گیارہ ہلاک ہونے والوں میں دوسرے پاکستانی کوہ پیما تھے۔ تصویر میں اُن کی بیوی گل دانا اپنے شوہر کی تصویر تھامے ہوئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A. Qureshi
کے ٹو سر کرنے والی پہلی پاکستانی ٹیم
کے ٹو چوٹی کی ابتدائی نشاندہی کے بعد 26 جولائی سن 2014 کو پہلی مرتبہ چھ پاکستانی کوہ پیماؤں کی ٹیم تین اطالوی کوہ پیماؤں کے ساتھ چوٹی کو سر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ مہم کے ٹو کی نشاندہی کے ساٹھ برس مکمل ہونے پر کی گئی تھی۔ اس کوہ پیمائی کے دوران چوٹی کی پیمائش بھی کی گئی۔ اس میں ایک پاکستانی کوہ پیما رحمت اللہ بیگ بھی شامل تھے۔ تصویر میں وہ اپنے یورپی و پاکستانی ساتھیوں کی تصاویر دکھا رہے ہيں۔
تصویر: Getty Images/A. Qureshi
کے ٹو کی ہمسایہ چوٹی : براڈ پیک
براڈ پیک بھی آٹھ ہزار سے بلند پہاڑی چوٹیوں میں سے ایک ہے جو پاکستان کے شمالی علاقے میں واقع ہے۔ بلتی زبان میں اسے فَلچن کنگری پکارا جاتا ہے۔ یہ کوہ قراقرم کی بلند ترین چوٹی ہے۔ اس کو سر کرنے والے ایرانی کوہ پیما رامین شجاعی اپنے ملکی پرچم کے ساتھ۔
تصویر: DW
6 تصاویر1 | 6
ماہرین کے مطابق یہ دریائی نظام اتنے اہم ہیں کہ مجموعی طور پر اربوں انسان اپنے لیے خوراک، توانائی، صاف ہوا اور آمدنی کی خاطر براہ راست یا بالواسطہ طور پر انہی دریاؤں پر انحصار کرتے ہیں۔
اس خطے میں موجود دنیا کے بلند ترین پہاڑوں میں ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو بھی شامل ہیں اور ہندو کش ہمالیہ کے ان گلیشیئرز کے پگھل جانے سے اربوں انسانوں کی زندگی پر انتہائی تکلیف دہ ماحولیاتی اور اقتصادی اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ رپورٹ 350 سے زائد ماہرین اور محققین نے، 185 تنظیموں اور 210 مصنفین کی مدد سے پانچ سال کے عرصے میں تیار کی، جس کا اس رپورٹ کے حتمی نتائج جاری کیے جانے سے قبل 125 غیر جانبدار مبصرین نے آزادانہ جائزہ بھی لیا۔
م م / ا ا / اے ایف پی
پاکستان میں گلیشیئرز کے حجم میں اضافہ پریشانی کا باعث کیوں ؟
دنیا کے مختلف علاقوں میں گلیشئرز کے پگھلنے سے سیلاب کا خطرہ رہتا ہے البتہ پاکستان کے ایک علاقے میں سیلاب کا خطرہ گلیشیرز کے پگھلنے سے نہیں بلکہ ان کے حجم میں اضافے سے بڑھ رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
گلیشئیرز بلکل مستحکم ہیں
ماہرین کی رائے میں پاکستان کے شمالی علاقے میں 120 گلیشئیرز بلکل مستحکم ہیں اور ان کی حجم میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اس کو ماہرین ’قراقرم اینوملی‘ کا نام دے رہے ہیں۔ گزشتہ برس برطانیہ کی ’نیو کاسل یونیورسٹی‘ کے محقیقین نے کہا تھا کہ قراقرم پہاڑی سلسلے میں ٹھنڈی ہوائیں گلیشئیرز کی تعداد اور ان کا حجم بڑھانے کی وجہ بن رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
گلیشیئر گزشتہ سال مئی سے بڑھ رہا ہے
جہاں دنیا بھر میں اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے تو وہیں پاکستان کے اس علاقے میں برف کے پہاڑ مزید مضبوط اور مستحکم ہو رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کی شمشال وادی میں ’خوردوپن‘ نامی ایک گلیشیئر ماہرین کی پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ یہ گلیشیئر گزشتہ سال مئی سے بڑھ رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نئی ندی
آغا خان ڈولپمنٹ نیٹ ورک ایک ایسی بہت بڑی ندی کا مشاہدہ کر رہا ہے، جو ایک گلیشیئر کی جانب سے شمشال دریا کو بلاک کر دینے کے باعث بنی تھی۔ اب خدشہ ہے کہ یہ ندی جس کا زیادہ تر حصہ جما ہوا ہے گرمیوں کے مہنیوں میں سیلاب کا باعث بن سکتی ہے۔ اس صورتحال نے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، مقامی افراد اور آغا خان نیٹ ورک کو پریشان کیا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
پانی کا اچانک بہاؤ
پاکستان محکمہ موسمیات کے سربراہ غلام رسول نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’مارچ کے وسط میں پانی کا بہاؤ بڑھ جائے گا، میری رائے میں ندی برف کے اوپر سے پگھلے گی اور اپنی جگہ خود بنائے گی۔ مجھے نہیں لگتا کہ پانی کا اچانک بہاؤ دیکھنے میں آئے گا۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
سیلاب آنے کی صورت میں کیا کیا جائے ؟
اس ندی کی سطح سے نیچے کی آبادیاں لیکن احتیاط سے کام لے رہی ہیں۔ کمیونٹی میں ریسکیو ٹیمیں بنی ہوئی ہیں تاکہ وہ سیلاب آنے کی صورت میں لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچا سکیں۔ رسول کی رائے میں عام تاثر ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں گلیشئیر کو کم کرنے کے بجائے ان کو بڑھا رہی ہیں۔ سائنسدانوں کی رائے میں بحیرہء اوقیانوس کے گرم ہونے کی وجہ جنوب میں ٹھنڈی ہواؤں کے طوفان آ سکتے ہیں
تصویر: Getty Images
’ قراقرم اینوملی‘
رسول کی رائے میں ’ قراقرم اینوملی‘ زیادہ عرصہ تک نہیں چلے گا۔ ان کا کہنا ہے،’’ جیسے جیسے دور علاقوں میں درجہ حرارت بڑھے گا، یہاں گلیشئیرز کے حجم میں کمی ہونا شروع ہو جائے گی۔‘‘ تاہم شمشال ویلی کے رہائشی اس بڑے گلیشیئر اور اس کے پیچھے چھپی ہوئی ندی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ب ج/ ع ا، تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن