ہزاروں تارکین وطن روزانہ ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں لیکن یونان سے جرمنی اور مغربی یورپ پہنچنے کے راستے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستانی تارکین وطن کے بعد اب افغان باشندوں کے لیے بھی سرحدیں بند ہو چکی ہیں۔
اشتہار
چوبیس سالہ جمشید بھی ایک ایسا ہی افغان تارک وطن ہے جو لاکھوں روپے خرچ کر کے یونان تک تو پہنچ گیا، لیکن اب وہ اپنی منزل جرمنی کی جانب سفر جاری نہیں رکھ سکتا کیوں کہ مقدونیہ نے یونان سے متصل اپنی سرحد افغان پناہ گزینوں کے لیے بھی بند کر دی ہے۔
جمشید کابل کا رہنے والا ہے اور وہاں وہ امریکی فوج کے لیے بطور مترجم کام کرتا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ ایک گفتگو میں جمشید کا کہنا تھا، ’’جب ہم مقدونیہ کی سرحد پر پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ افغان شہری سرحد پار نہیں کر سکتے، صرف شامی مہاجرین کو آگے جانے کی اجازت ہے۔ یہ تو سراسر زیادتی ہے۔‘‘
تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق بلقان کی ریاستوں نے بھی اپنے اپنے علاقے سے گزر کر مغربی یورپ کی جانب سفر کرنے والے تارکین وطن کی یومیہ حد مقرر کر دی ہے۔ مقدونیہ، سربیا، کروشیا اور سلووینیہ نے مشترکہ فیصلہ کیا ہے کہ روزانہ صرف 580 تارکین وطن کو ان ممالک میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے مطابق جنوری سے لے کر فروری کے وسط تک یونان میں ایک لاکھ سے زائد تارکین وطن پہنچے۔ ان میں سے 44 فیصد کا تعلق شام، 29 فیصد کا افغانستان جب کہ تین فیصد کا تعلق پاکستان سے ہے۔
شامی تارکین وطن کو سفر جاری رکھنے کی اجازت دینے اور افغان باشندوں پر پابندی لگائے جانے کے حوالے سے جمشید کا کہنا تھا، ’’شام میں پانچ سال سے خانہ جنگی جاری ہے جب کہ افغانستان میں پچھلے تیس برس سے جنگ ہو رہی ہے۔ دولت اسلامیہ (داعش) شام میں ہے تو افغانستان میں بھی شدت پسند گروہ سرگرم ہیں۔ شام اور افغانستان کی صورت حال میں فرق کیا ہے؟‘‘
مقدونیہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ افغان تارکین وطن پر پابندی دیگر ممالک کی جانب سے افغان تارکین وطن کو واپس بھیجنے کے بعد لگائی گئی ہے۔ ان تارکین وطن نے خود کو افغان شہری ظاہر کیا تھا لیکن ان کا تعلق پاکستان اور ایران سے تھا۔
بائیس سالہ محمد کا تعلق بھی افغانستان سے ہے اور وہ اپنے ملک میں انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ محمد کا کہنا ہے کہ مقدونیہ کی پولیس افغان شہریوں سے امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔ محمد کے مطابق، ’’انہوں نے ہم سے پوچھا کہ ہمارا تعلق کس ملک سے ہے، ہم نے بتایا کہ افغانستان سے، تو انہوں نے بغیر کاغذات دیکھے ہمیں یہ کہہ دیا کہ واپس چلے جاؤ۔‘‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بلقان کی ریاستوں کی جانب سے سرحدوں کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بان کی مون کا کہنا تھا کہ سرحدی پابندیاں مہاجرین سے متعلق بین الاقوامی کنونشن سے متصادم ہیں۔
یورپی یونین نے بھی موجودہ صورت حال کے پیش نظر خبردار کیا ہے کہ بلقان کی ریاستوں کی جانب سے تارکین وطن کی یومیہ حد مقرر کیے جانے کے بعد اگر ترکی کے ساتھ مذاکرات بھی ناکام ہو گئے تو پناہ گزینوں کا بحران ’تباہ کن‘ صورت اختیار کر لے گا۔
مقدونيہ کی سرحد پر پھنسے پناہ گزين
مقدونيہ نے يونان کے ساتھ اپنی سرحد پر تين کلوميٹر طويل باڑ لگانے کا کام مکمل کر ليا ہے۔ اس دوران وہاں پھنسے مہاجرين کے درميان کشيدگی بڑھ رہی ہے، جس پر قابو پانے کے ليے غير سرکاری تنظيموں نے حکومت سے مدد کا مطالبہ کيا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
يونانی علاقے ميں بے يار و مددگار
مقدونيہ کی سرحد پر پاکستانی پناہ گزين حسن اور محمد صغير خود کو گرم رکھنے کے ليے کوڑے کے ڈھير کو آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہيں۔ مقدونيہ، سربيا اور سلووينيا کی جانب سے ’محفوظ‘ ملکوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرين کو روکنے کے فيصلے کے بعد سے يہ دونوں بھائی يونانی علاقے اڈومينی ميں پھنس گئے ہيں۔ بلقان خطے کے چند ملکوں کے حاليہ اقدام کے نتيجے ميں اس مقام پر ڈيڑھ تا دو ہزار مہاجرين پھنسے ہوئے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سخت سردی ميں کھلے آسمان تلے
’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے تعاون سے اس مقام پر قريب دو ہزار پناہ گزينوں کے ليے تين بڑے خيمے کھڑے کر ديے گئے ہيں، جن ميں گرم رکھنے کا انتظام بھی ہے۔ تاہم ادارے کے اڈومينی ميں فيلڈ کوآرڈينيٹر انتونس ريگاس کے بقول اب بھی ايک ہزار کے لگ بھگ مہاجرين رات کے وقت چھ ڈگری درجہ حرارت ميں کھلے آسمان تلے سو رہے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مدد اور تعاون کا فقدان
مراکش سے تعلق رکھنے والا ايک نوجوان سرحد کھلنے کا منتظر ہے تاہم ريگاس کے بقول اس کے امکانات کافی کم ہی ہيں۔ انہوں نے بتايا، ’’ہم درخواست کر رہے ہيں کہ حکومت کی جانب سے کم از کم تين نمائندے يہاں بھيجے جائيں جو کيمپ چلانے ميں مدد کر سکيں۔ يہاں کے مکمل انتظامات کی نگران اب غير سرکاری تنظيميں ہی ہيں۔ ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی ذمہ داری نہيں کہ وہ حکومت کا کام سر انجام دے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہريت کی بنياد پر تقسيم
اس وقت يوميہ بنيادوں پر سينکڑوں شامی، عراقی اور افغان شہری يونان سے مقدونيہ ميں داخل ہو رہے ہيں جبکہ پيچھے رہ جانے والے الجھن کا شکار ہيں۔ بتيس سالہ بنگلہ ديشی دکاندار شيامال رابی کہتا ہے کہ وہ غير قانونی طور پر يورپ جانے کا خواہشمند نہيں۔ اس کا مزيد کہنا ہے، ’’ہم بھی انسان ہيں، ہمارے بھی کچھ حقوق ہيں۔ اگر تين ملکوں کے لوگوں کو آگے بڑھنے کی اجازت ہے، تو ہميں بھی يہ اجازت ملنی چاہيے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
پناہ گزينوں کے درميان کشيدگی بڑھتی ہوئی
مشکل حالات اکثر اوقات غصے کو جنم ديتے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ کيمپوں ميں مہاجرين کے مختلف گروپوں کے مابين لڑائی جھگڑے کے مناظر معمول کی بات ہيں۔ نيپالی باشندے راج کا کہنا ہے کہ ايک ايرانی نے اس کے منہ پر مکا مارا تھا۔ گزشتہ جمعے کے روز ايک غير ساکاری تنظيم کے ڈاکٹروں نے دو شمالی افريقی پناہ گزيوں کے زخموں پر پٹی باندھی، جنہيں چاقو کے وار سے يہ زخم آئے تھے۔ کھانے کے تقسيم کے وقت سے اکثر جھگڑے ہوتے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
احتجاج جو کبھی پر امن تھا، پر تشدد ہوتے ہوئے
گزشتہ ہفتے يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر پھنسے ہوئے مہاجرين نے سوئی دھاگے کی مدد سے احتجاجاً اپنے منہہ سی ڈالے اور بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی۔ تاہم يہ مظاہرے پر امن کچھ ہی وقت کے ليے رہے اور پھر جمعرات اور ہفتے کے روز مہاجرين کی حکام کے ساتھ جھڑپيں رپورٹ کی گئيں۔ ايک امدادی کارکن کے بقول پناہ گزين کافی برہم ہيں۔ کئی مہاجرين شراب نوشی بھی کرنے لگے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگامی حالت
UNHCR سے وابستہ اليگزاندروس وولگارس کا کہنا ہے کہ وہاں صرف تيس ہی منٹ ميں حالات تبديل ہو سکتے ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم کسی چيز کی منصوبہ بندی نہيں کر سکتے، يہ ہنگامی صورتحال ہے اور ہماری کوشش صرف يہی ہے کہ لوگوں کو محفوظ رکھا جائے۔‘‘ وولگارس کا کہنا ہے کہ وہ پناہ گزينوں سے گزارش کر رہے ہيں کہ وہ يونانی دارالحکومت جائيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’وہ چاہتے ہيں کہ ہم جنگ کا حصہ بنيں‘
بائيس سالہ يمنی پناہ گزين رامی التھاری اپنے فون پر صناء ميں تباہ کاريوں کے مناظر دکھا رہا ہے۔ وہ ديگر گيارہ يمنی پناہ گزينوں کے ساتھ سفر کر رہا ہے، جنہيں حوثی باغيوں کی صفوں ميں شامل ہونے پر مجبور کيا گيا تھا۔ ’’وہ چاہتے ہيں کہ ہم جنگ کريں ليکن ہم نہيں لڑيں گے۔ ہميں ورنہ سعودی مار ديں گے۔ اسی ليے جب تک سرحد نہيں کھلتی، ہم يہيں انتظار کريں گے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
ايک اور الميہ
ايک يونانی ورکرز يونين کے ارکان نے ہفتے کے روز يہاں مختلف چيزيں تقسيم کيں۔ يونين کے صدر کا کہنا ہے کہ اگر اس مقام پر جلد ہی مسائل کا حل تلاش نہ کيا جا سکا، تو يہ اگلا Calais ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول وہاں ميسر سہوليات ناکافی ہيں اور موسم سرما کی آمد کے ساتھ مہاجرين اپنے مقاصد کے حصول کے ليے متبادل راستے تلاش کريں گے۔ انہوں نے مزيد کہا کہ اسمگلر بھی کافی چالاک ہوتے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’پلان بی‘ کيا ہے؟
مقدونيہ نے يونان کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا کام اتوار کی دن مکمل کر ليا ہے۔ يونان ميں Medecins du Monde کے صدر نيکيتاس کناکس کے بقول اس مقام پر پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کے ليے دنيا بھر سے لوگ موجود ہيں ليکن يونانی حکومت کا کوئی نمائندہ نہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ہميں خدشہ ہے کہ آئندہ کچھ دنوں ميں سرحد مکمل طور پر بند کر دی جائے گی۔ اگر ہم سب کو ايتھنز منتقل کر بھی ديتے ہيں، تو پھر کيا ہو گا؟‘‘